Columnمحمد مبشر انوار

ایک سال ۔۔۔

محمدمبشر انوار( ریاض)
پاکستانی سیاست میں یہ مفروضہ مسلمہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اگر عوامی مقبولیت چاہتی ہے تو اسے مقتدرہ مخالف موقف اپنانا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر عوامی حمایت و تائید ممکن نہیں ۔ دوسری طرف اقتدار کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مقتدرہ سے تعلقات نہ ہوں، مقتدرہ مخالف موقف رکھنے والی سیاسی جماعت کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے حمایت میں کھڑی ہونی والی عوام کے لئے جو مصائب منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں،ان کا مشاہدہ پاکستانی بعد از آزادی بخوبی کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے خواہ مادر ملت فاطمہ جناح کی شخصیت ہو یا شیخ مجیب الرحمن ہوں ،ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بے نظیر بھٹو ہوں ،نواز شریف ہوں یا اب عمران خان ہوں،سب کو اس کی قیمت ادار کرنا پڑی ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔مذکورہ شخصیات میںسے یہ اعزاز بھی صرف نواز شریف کو حاصل ہے کہ ان تمام مصائب کے باوجود،کسی حد تک مقتدرہ مخالف موقف ،جس کا مقصد صرف حصول اقتدار ہی رہا ہے،رکھنے کے باوجودوہ واحد سیاستدان ہیں،جنہیں مسند اقتدار پر تین مرتبہ براجمان کروایا گیا ہے، جبکہ باقی سیاستدانوں کے انجام سے پاکستانی بخوبی واقف ہیں۔ تقریبا تمام سیاسی پنڈت ، سیاسی طالبعلم اور تحریک انصاف کے کرتا دھرتا،اس پر متفق ہیں کہ 2022ء میں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں تحریک انصاف اور عمران خان ،اپنی مقبولیت کھوچکے تھے اور اگر تحریک عدم اعتماد کی کارروائی نہ کی جاتی تو عین ممکن تھا اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کامیابی حاصل نہ کر پاتی۔رجیم چینج کے حوالے سے حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں کہ کس طرح تحریک عدم اعتماد لائی گئی،اس کے پس پردہ کردار کون رہے اور اس میں تاخیر کا سبب کیا ہوا کہ بقول خواجہ آصف ن لیگ سے رابطے 2019ء میں ہی ہو چکے تھے تاہم بوجوہ کورونا،تحریک عدم اعتماد میں تاخیر کی گئی۔جس کی وجہ ممکنہ طور پر یہی ہو سکتی ہے کہ اگر تحریک انصاف کرونا سے نپٹنے میںناکام رہتی تو اسے بآسانی اقتدار سے الگ کیا جا سکتا تھا لیکن خواہشات کے برعکس،تحریک انصاف کرونا سے جس طرح نبردآزما ہوئی،اسے ترقی یافتہ دنیا نے بھی سراہالہذا اس بنیاد پر تحریک انصاف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہ رہا۔ریاستی امور چلانے کے لئے تحریک انصاف کے منشور میں دو نکات انتہائی اہم تھے کہ اولا معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو اور دوسرا اہم ترین نکتہ ملکی معیشت کی بحالی کا تھا کہ اقوام عالم میں عزت و توقیر معاشی استحکام کے بغیر ممکن ہی نہیں۔غیر جانبدارانہ دیکھا جائے تو انصاف کے حوالے سے تحریک انصاف کا لائحہ عمل اس لئے مناسب دکھائی نہیں دیتا کہ انصاف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانونی تقاضے پورے نہ ہوں اور انتظامیہ کا اس میں عمل دخل نہ ہو،پاکستانی وسائل کی لوٹ مار پر پوری قوم قائل ہے کہ اشرافیہ نے اس کے وسائل کو انتہائی بے دردی سے لوٹا ہے لیکن اس کی برآمدگی کے طریقہ کار میںوزیراعظم کا براہ راست ملوث ہونا ،عدالتی نظام پر سوالیہ نشان تصور ہو گا،خواہ پس پردہ نیت ملکی دولت کی برآمدگی ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک قوانین کے مطابق تمام عمل روپذیر نہیں ہوتا،اس کو شفاف عمل سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی،لہذا عمران خان کا بطور وزیراعظم قانونی عمل پر رائے دینا،اپنی خواہشات کا اظہار کرنا،انصاف کی فراہمی پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہی تصور ہو گا۔ بعد ازاں،جس طرح نواز شریف کو بیرون ملک بھجوایا گیا،وہ عمران خان کے تمام تر دعوئوں کی نفی کرتا نظر آیا۔
جہاں تک معیشت کی بحالی کا مسئلہ تھا،تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر واقعتا عملی کام کیا،جس کا ثبوت پی ڈی ایم کی حکومت میں جاری ہونے والی رپورٹ میں دیا گیا کہ شرح نمو چھ فیصد تک جا چکی تھی گو کہ اس میںدیگر عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کرونا کے ہنگام دنیا کی دیگر صنعتیں بند ہونے کے باعث،موقع پاکستان کو میسر ہوا،جس سے تحریک انصاف کی حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تاہم رجیم چینج کے بعدپی ڈی ایم حکومت ،اس رفتار کو کیا بڑھاتی،وہ اس کو برقرار رکھنے میں بھی بری طرح ناکام ہوئی اور اس کا تمام تر محور و مرکزذاتی مقدمات سے نجات کے لئے ،انفرادی قانون سازی پر رہاکہ کس طرح اپنے مقدمات کو قانون سازی کے ذریعے غیر موثر کیا جا سکتا ہے۔ برسبیل تذکرہ ایسی قانون سازی کی حوصلہ شکنی اسی صورت ممکن ہے کہ عدالت عظمی ایسی قانون سازی کو کالعدم قرار دے،جو کسی فرد واحد یا مخصوص گروہ کو سامنے رکھ کر کی جائے،جو نہ صرف آئین بلکہ بنیادی جیورس پروڈنس سے متصادم ہوبصورت دیگر پارلیمان کے ذمہ بس یہی کام باقی رہ جائے گاکہ کس طرح ذاتی مفادات کو تحفظ دیا جا سکتا ہے،کس طرح مخالفین کااقتدار میں راستہ روکا جا سکتا ہے،جو اس وقت بھی الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے کیا جار ہا ہے ۔ یعنی، خود کو بدلتے نہیں،قرآن کو بدل دیتے ہیں۔۔ ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!! کے مصداق قانون سازی جاری رہے گی اور خود کو قانون کے مطابق ڈھالنے کی بجائے،قانون کو اپنے مفادات کے تابع ڈھالنے کا عمل جاری رہے گا۔بہرکیف بات معیشت کی ہو رہی تھی،جو اس وقت مسلسل زمین بوس دکھائی دے رہی ہے اور تحریک انصاف کی محنت ضائع ہورہی ہے، عوام مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ میں دبتے جا رہے ہیں ،بجلی کی ہوشربا قیمتوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، بنیادی ضرورت سے بڑھ کر بجلی اب عذاب بن چکی ہے ،یہاں بھی عوام عمران خان کی مشکور ہے کہ اس نے آئی پی پیز سے ڈالر کی قیمت 148پر فکس کر دی تھی وگرنہ بجلی کی قیمت کا کیا عالم ہوتا؟
بہرکیف ریاست صرف ان دو امور پر بروئے کار نہیں آتی بلکہ اقوام عالم میں عزت و وقار قائم رکھنے کے لئے اور محاذ بھی ہوتے ہیں،جن پر گرفت ہونا ازحد ضروری ہے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات شخصیات کی مرہون منت نہیں ہوتے البتہ شخصیات اپنی گفتگو ،رکھ رکھاؤ اور سفارتی گفتگو سے ان تعلقات کو مسلسل تقویت بخشتے ہیں جبکہ کسی ایک شخص کے منظر سے ہٹنے پر،دو ریاستوں کے تعلقات کبھی متاثر ہوتے دکھائی نہیں دئیے البتہ اتنا ضرور ہوتا ہے کہ کچھ وقت کے لئے تعلقات میں گرمجوشی کا عنصر مفقود ہو جاتا ہے۔ریاست پاکستان میں خارجہ امور اور دفاع کے حوالے سے ،یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ دونوں محاذایک عرصہ سے مقتدرہنے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں اور سویلین حکمرانوں کے لئے یہ شجر ممنوعہ ہی ہے،ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کہ جن کا اپنا سیاسی قد کاٹھ اس قدر بڑا تھا کہ وہ ان دونوں معاملات میں عالمی سطح پر بخوبی بروئے کار آتے ہوئے،پاکستانی مفادات کا تحفظ کررہے تھے،علاوہ ازیں،کسی دوسری حکومت کو یہ ذمہ داری کاملا تفویض نہیں ہوئی۔مقتدرہ کس طرح ان تعلقات کو سنبھالے ہوئے ہے،یہ حقیقت بھی سب پر واضح ہے،لوگوں کی اس پر مختلف رائے ہے کہ مقتدرہ کا یہ منصب نہیں ہے کہ ان معاملات کو دیکھے تو کئی ایک ایسے بھی ہیں،جو مقتدرہ کے اس کردار کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں،تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ انتہائی نازک معاملات ہیں اور ان سے عہدہ برآء ہونے کے لئے کسی بھی شخصیت کو ان کی نزاکت سے بہرہ مند ہونا انتہائی ضروری ہے کہ ان معاملات میں معمولی سی غلطی بھی ریاستی مفادات کوناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔کسی سربراہ مملکت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان امور پر انتہائی سوچ سمجھ کر،ناپ تول کر بات کرے تا کہ دو ریاستوں کے درمیان تعلقات پر آنچ نہ آئے۔عمران خان کے اقتدار میں آنے پر پاکستان کے بہت سارے دوست ممالک نے خوشی کا اظہار کیا تھا ،اس کی وجہ عمران خان کی اپنی شخصیت کے علاوہ ان کی پاکستان سے محبت اور ایمانداری کو تصور کیا جاتا تھا،دوست ممالک سمجھتے تھے کہ عمران خان کے آنے سے پاکستان درست سمت میں گامزن ہو جائیگااور مسائل سے نکل آئے گا۔اس حوالے سے مشرق وسطی کے دوست ممالک نے دیدہ و دل بچھائے،تمام سہولتیں فراہم کی لیکن بدقسمتی سے عمران خان سفارتی آداب کے منافی گفتگو کر کے نہ صرف ان دوست ممالک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تارکین وطن کو نکالنے کی دھمکی تک دے ڈالی،عمران خان نے اس حد تک سفارتی آداب کی تو ہین کی کہ ایک دوسرے سربراہ حکومت کو اس سے آگاہ کرکے،سبکی کا باعث بنے۔یہ معاملات کس طرح سنبھالے گئے،کون کون اس میں مدد کو پہنچا،کس نے ریاستی مفادات کو محفوظ بنایا،اس سے ہر کوئی واقف ہی ہوگا کہ پس پردہ کون ان معاملات کو سنبھال سکتا ہے،سو انہوں نے سنبھال لیا۔آج عمران خان کی اسیری کو ایک سال ہو گیا ،تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود،مقدمات میں قوانین کی دھجیاں اڑنے کے باوجود،بظاہر یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ایک طرف اقتدار کی عملی سیاست میں عمران خان کی موجودگی ممکن نہیں تو دوسری طرف آزاد فضاؤں میں سانس لینا بھی عمران کے لئے بظاہر ممکن نہیں ہے تاوقتیکہ مقتدرہ کو یقین دہانی نہ کروائی جائے کہ مستقبل میں مزید ایسی غلطیوں کاامکان نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے باوجود یہ کہنا کہ عمران خان کا فوری طور پر آزاد ہونا اور پھر اقتدار کا حصول،ایک سہل مرحلہ ہو گا،مشکل ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیںالبتہ معجزات کا ہونا بھی بعید از قیاس ہرگز نہیں کہ ابھی تو صرف ایک سال گزرا ہے۔۔۔۔

جواب دیں

Back to top button