Column

شہادت ہے مطلوب مقصود مومن ۔ اسماعیل ہانیہ

ایم فاروق قمر

سر زمینِ انبیاٌء کو پنجہ ء جبر و استبداد سے نکلوانے میں عمر صرف کر دینے والا بوڑھا شیر، مزاحمت کا روشن استعارہ ’’ اسماعیل ہنیہ‘‘ اپنے سارے خاندان کی شہادت کے بعد خود بھی خلعتِ شہادت پہن کر پہن کر رب تعالیٰ کے حضور پہنچ گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گفتار ہی نہیں، کردار کے بھی غازی ہیں، جو مصلے پر کھڑے ہو نہ صرف امامت کا سبق پڑھاتے ہیں بلکہ میدانِ کارزار میں بھی اولین صفوں میں نظر آتے ہیں ۔
اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران میں موجود تھے۔ اسماعیل ہانیہ کو تہران میں ان کی رہائشگاہ پر بدھ کی صبح اسرائیل نے حملے کے ذریعے نشانہ بنایا، حملے میں اسماعیل ہنیہ کا سکیورٹی گارڈ بھی شہید ہوا ہے۔ اسماعیل ہانیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا۔ ایران کا کہنا ہے کہ قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے نتائج جلد سامنے لائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے بھی درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔
اسماعیل عبدالسلام ہنیہ، جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1962ء میں غزہ کے شہر کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 16سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی جن سے ان کے 13بچے ہوئے جن میں 8بیٹے اور 5بیٹیاں شامل ہیں۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987ء میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی، پھر 2009ء میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملی۔
2017ء میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا، وہ 2023ء سے قطر میں قیام پذیر تھے۔ اسماعیل ہنیہ 1988ء میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے شامل تھے، 1997ء میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری بن گئے، 1988ء میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا۔1989 میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992ء میں اسماعیل ہنیہ کو لبنان ڈی پورٹ کیا گیا جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہنیہ کی غزہ واپسی ہوئی۔
2004ء میں اسرائیلی حملے میں شیخ یاسین کی ہلاکت کے بعد حماس میں قیادت کے بحران نے جنم لیا۔ لیکن 2006ء میں اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کے بعد ہونے والے انتخابات میں حماس نے واضح برتری حاصل کی تو اسماعیل ہنیہ فلسطین کے دسویں وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اور اگلے ہی سال یعنی 2007ء میں حماس نے غزہ کی پٹی کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ 6مئی 2017ء کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی بیورو کا سربراہ منتخب کیا۔ حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں 1200افراد کی ہلاکت اور 250سے زائد شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد اسرائیلی حملوں میں اب تک 39ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت بچوں کی ہے۔ اسرائیل کے مطابق غزہ کی پٹی میں باقی 130یرغمالیوں میں سے 34ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ غزہ سے متعلق عالمی سفارتکاری میں ایک جارحانہ موقف رکھنے والے اعتدال پسند شخصیت تھے، جن کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر حماس کے کاز کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اسماعیل ہنیہ کے سخت بیانات کے باوجود کئی سفارتکاروں کے نزدیک وہ غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنمائوں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند تھے۔ اسماعیل ہنیہ حماس کیلئے عرب ملکوں کے ساتھ سیاسی جنگ کی قیادت کر رہے تھے اور وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی چہرہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی مظالم کے سامنے سینہ سپر ہوئے فلسطینیوں کا عزم بے پناہ قربانیوں کے بعد کم نہیں ہوا۔ بے شک اسماعیل ہنیہ شہید ہوچکے ہیں، لیکن آزادی کی یہ تحریک جاری رہے گی اور اسرائیلی مظالم کے خاتمے تک فلسطینی پسپا نہیں ہوں گے۔ فلسطینیوں کے آہنی عزم کو شکست نہیں دی جاسکتی۔
ایرانی سرزمین پر اسرائیل نے کئی اہم شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کیا ہے۔ ایسے قابل ذکر واقعات میں 2021ء میں ایران کی ایک اہم شخصیت اور جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کا ریموٹ کنٹرول ہتھیار سے قتل اور مئی 2022ء میں تہران میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر کرنل سید خدائی کا قتل شامل ہے۔ اور اب اسماعیل ہنیہ کی شہادت بھی۔
تین بیٹے، سات کم سن پوتے اور خاندان کے 60افراد کے بعد ساری اولاد کو اللہ کی راہ میں شہید کرانے والے عظیم مجاہد اور رہنما اسماعیل ہنیہ خود بھی ایران میں شہید ہو گئے۔
یہ شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
شہادت کو چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے۔ عظیم باپ کا عظیم بیٹا انٹرویو دے رہا تھا۔ اعتماد و اطمینان، صبر و ثبات، جوان مردی و استقامت کا پیکر۔ نہ لہجے میں غم کی جھلک، نہ الفاظ میں کوئی لکنت۔ شہادت خاندانی میراث ہے۔ جس پر اظہار افتخار۔ جرأت و بہادری، عزم و حوصلہ، شجاعت و بسالت، جوان مردی و اولوالعزمی اور علو ہمتی کے خمیر تیار ہونے والے انسان اہل غزہ کہلاتے ہیں۔ ڈر، خوف، مایوسی، غم وماتم، گھبراہٹ و مایوسی نام کی کوئی چیز ان کی لغت میں ہی نہیں ہے۔
بقول شاعر
گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے
کرتے ہیں بہت لوگ مگر ہم نہیں کرتے
ان کی آخری رسومات دو اگست کو ادا کر دی گئی، جس کے بعد انھیں قطر کے شہر لوسیل کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
جنت میں چراغاں ہوگا، محفل سجے گی، شیخ یاسین اپنے جانشین کا استقبال کریں گے، کتنا خوبصورت منظر ہوگا۔ قبلہ اول کا محافظ کتنی شان و شوکت سے جنت میں داخل ہوگا۔ امین!

جواب دیں

Back to top button