Column

اعتدال کا راستہ اختیار کریں

محمد عباس عزیز

ہمارے مسائل کیا ہیں اور ان کو کیسے حل کرنا ہے، شاید77برس گزر جانے کے بعد بھی ہمیں احساس نہیں ہو پا رہا، مسائل تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ تمام ممالک ان کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں ہم نے گزشتہ کالم میں دہشتگردی اور ملکی معیشت کے حوالے سے یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب تک پاکستان میں سیاسی انتشار رہے گا دہشتگردی ختم نہیں ہوگی اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر اکٹھے ہوں اور ملکر اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ پاکستان ایک عرصہ سے دہشتگردی کا شکار رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں اور دفاعی اداروں میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ بنوں میں حالیہ دہشتگردی کے دو واقعات ہوئے ہیں اس میں ہمارے کتنے فوجی جوان شہید ہوئے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کے پی میں جہاں یہ واقعات کثرت سی ہو رہے ہیں، وہاں کی صوبائی حکومت دہشتگردوں کی مدد کرنے پر یقین رکھتی ہے اور ماضی میں جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو، جنہوں نے ہزاروں شہریوں اور فوجی جوانوں کو شہید کیا تھا، پشاور کے کئی علاقوں میں پناہ دی تھی۔ کے پی کے کی موجودہ حکومت بھی دہشتگردی کا سدباب کرنے میں مکمل ناکام ہے، بلکہ ایک لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وہاں کے وزیراعلیٰ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں اور وہ وفاقی حکومت کو دہشتگردی کے خلاف کوئی سپورٹ نہیں دے رہے۔ ہم مسلمانوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی کو کریدتے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف2017ء کی بات بار بار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تمام معاملات درست چل رہے تھے، ہم آئی ایم ایف کو بھی خیر باد کہہ چکے تھے مگر کچھ جرنیلوں اور ججوں نے ہماری حکومت کی بساط لپیٹ دی۔ کاش ایسا نہ ہوتا مگر ہوگیا۔ سسٹم کو ڈی ریل کیا گیا، آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں، چند ججوں اور جرنیلوں نے اپنی انا کی خاطر ملک پاکستان کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیا۔ معروف دینی سکالر جناب جاوید احمد غامدی جب بھی سیاست پر بات کرتے ہیں تو وہ یہ فرماتے ہیں کہ سسٹم کو ڈی ریل نہ کریں، کیونکہ اس سے اللہ کی رحمت ختم ہوجاتی ہے۔1947ء سے لے کر آج تک کتنی دفعہ یہ سسٹم ڈی ریل کیا گیا قوم اس سے بخوبی واقف ہے۔ ہماری مثال تو اس عورت جیسی ہے جو سارا دن سوت بناتی ہے اور پھر اس کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ دیتی ہے۔1973ء کا آئین ہم نے کتنی بار اپنے ہاتھوں سے توڑا، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملکی نظم و نسق میں بڑے پیمانے پر خلل پڑنے سے قومی اور عوامی اہمیت کے منصوبے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ بار بار سسٹم کو ڈیل ریل کرنے کی وجہ سے اللہ کی رحمت پاکستان سے اٹھ گئی ہے۔ ایک انارکی کی صورتحال ہے، آج پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں شاید اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔ سیاسی انتشار اور دہشتگرد ی نے ہماری مت ماری ہوئی ہے۔ معاشی صورتحال ابتری کا شکار ہے، عدلیہ کے حالیہ فیصلے سے سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی، بجلی کے بل عوام پر آسمانی بجلی کی طرح گر رہے ہیں، عوام کا کچومر نکل گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات سے کچھ معاشی بہتری کے چانس نمایاں ہونے لگے تھے لیکن امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، پاکستان سے اصل مسائل نظر انداز ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، ہم سے جدا ہوئے بنگلہ دیش نے آبادی پر کنٹرول کر لیا ہے، یہاں پر منصوبہ بندی کا اشتہار دینا حکومت کیلئے مسئلہ بن جاتاہے۔ یہ جو مذہبی گروپ ہمارے معاشرے میں پنپ چکے ہیں یہ بھی سابقہ حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہوا۔ ٹی ایل پی نے اسلام آباد فیض آباد پر دھرنا دیا، کس نے ان کو اجازت دی۔ سپریم کورٹ کو ایسے معاملات میں بھی مداخلت کرنی چاہئے۔ کروڑوں بچے سکول نہیں جاتے، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو رہے ہیں ان کیلئے نوکریاں نہیں ہیں۔ ہر نوجوان کی خواہش ہے کہ وہ کسی یورپی ملک میں چلا جائے، پاکستان میں اپنے کاغذات کی تصدیق کرانی کیلئے فارن آفس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہیں، ماہرین پانی کی کمی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں، ڈیم نہیں بنائے جارہے شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈیمز پر صوبوں میں اختلاف پایا جاتاہے، پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ ہلاک ہورہے ہیں ہزاروں مسائل ہیں جو حکومت کی توجہ کے متقاضی ہیں لیکن کیا کیا جائے جہاں انتشار ہی ختم نہیں ہورہا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کافی مسئلوں کی طرف حکومت کی توجہ دلائی ہے لیکن ہم نہایت ادب سے اپنی اسٹیبلشمنٹ سے گزارش کریں گے کہ ہر صورت میں ملک میں امن و امان قائم رکھا جائے اس پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے۔ موجودہ حکومت کو اپنا کام کرنے دیا جائے تاکہ پاکستانی عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ اگر 9مئی کے واقعات میں ملوث لوگو ں کو اب تک سخت سزا دی جاتی تو شاید آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ فوج ہماری ریڈ لائن ہے اگر اس کو کمزور کیا گیا تو خدا نہ کرے پاکستان لیبیا، عراق، شام اور افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہوجائے، کیونکہ امریکہ اور بھارت اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ کسی طرح عوام اور فوج آمنے سامنے آ جائیں۔ کوئی بھی آرمی چیف یا وزیراعظم آئے اس کی سوچ جیسے بھی ہو وہ دہشتگردی پر کوئی کمپرومائز نہ کریں۔ بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا پر پاکستان کی آرمی کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی چاہئے کہ وہ ایک پالیسی واضح کرے، کوئی بھی آئے اس کو تبدیل نہ کرے۔ کسی مذہبی گروپ کو کنٹرول سے باہر نہ ہونے دیا جائے اور نہ اس کی پشت پناہی کی جائے جیسے ماضی میں ٹی ایل پی کے ساتھ ہوا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کو سر پر سوار کیا جائے جیسے پی ٹی آئی کے ساتھ کیا گیا۔ آئین و قانون کے مطابق ملک کو چلایا جائے، پی ٹی آئی اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اس کو چاہئے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر اپنے آپ کو منوائے، دھرنوں اور جلسے جلوس کی سیاست نہ کریں، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، جو بھی ان کا مطالبہ ہے وہ قومی اسمبلی میں اٹھائے، اعتدال میانہ روی اور حوصلہ سے کام لیں۔ حکومت عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی تمام سٹیک ہولڈر پاکستان کا سوچیں۔ ماضی صرف عبرت کیلئے ہوتا ہے، تاریخ سے سبق سیکھیں اور فیوچر کی طرف دیکھیں ورنہ پاکستان کے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button