
سی ایم رضوان
دنیا بھر میں سابقہ چند سالوں کے قلیل عرصہ کے دوران ہی سوشل میڈیا نے ایک بین الاقوامی میڈیا کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی آدھی سے زائد آبادی سوشل میڈیا سے وابستہ ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ درجنوں نئے اکائونٹس تخلیق کیے جاتے ہیں۔ جس سے سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب دنیا بھر کے لاکھوں ان پڑھ، ڈگری یافتہ، طفل مکتب اور بڑے بزرگ سبھی اس جدید سہولت سے فائدہ یا نقصان اٹھاتے اور پہنچاتے ہیں۔ اب دنیا کو گلوبل ویلیج کہنا پرانی بات ہو گئی ہے۔ اب اگر اس گلوبل ویلیج کو سوشلسٹان کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ سوشل میڈیا جہاں مثبت تبلیغ و تشہیر کا ایک موثر ذریعہ ہے وہیں نوجوان نسل کے ذہنوں میں اخلاقی گراوٹ پیدا کر کے طرح طرح کی برائیوں کو بھی جنم دے رہا ہی۔ یہ برائیاں معاشرے میں متعدی امراض کی طرح پھیل کر پورے معاشرے کو تباہ کن حالات کی لپیٹ میں لا کر زوال کے ایک مہلک مرض میں مبتلا کر رہا ہے اور یوں معاشرتی اقدار اور آداب کا قلع قمع ہو رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا قدامت اور جدت کے اس موڑ پر پہنچنے والی موجودہ دنیا کو شاید اسی تباہی اور تعفن سے گزر کر ہی آگے نئی اور جدید سہانی منزل پر پہنچنا ہے۔ شاید اب دنیا بھر کو یہ سفر طے کرنا ہی پڑے گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ، پراپیگنڈا، فحاشی اور عریانیت حد درجہ عام ہو جائے گی اور اس کے بعد کہیں جا کر یہ میڈیا آزادی کے ساتھ ساتھ شائستگی اور ادب، آداب کا مرکز بن جائے گا۔ اب تک تو اس سارے بیہودہ پروگرام اور لچر پن کو انسانی حق قرار دے کر اسے ہر طرح سے استعمال کرنے کا شعور ہی قائم ہوا ہے اور اسے ہی آزادی اور انسانی حقوق کا احترام سمجھا جا رہا ہے حالانکہ سوشلسٹان میں طبقہ ٹھرکیہ، سلسلہ تحرکیہ اور شہر ہائے فحاشیہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ لچر، لغو، جھوٹ اور فرضی خبروں کی بھرمار ہے۔ جعلی اور من چاہے اعدادوشمار دینے کا یہ وسیع تر میدان ہے۔ حکومتی اداروں کو بھی یہاں کھل کر بے ایمانی کرنے کا موقع میسر ہے اور اپوزیشن بھی ملک دشمنی تک کے حامل بیانات دینے کا اصل پلیٹ فارم اسی سوشل میڈیا کو سمجھتی ہے۔ راتوں رات قسمت بدلنے والے نجومیوں اور جعلی روحانی عاملوں کی بھی یہاں بھرمار ہے اور لوہا پاڑ معجون فروخت کرنے والے بھی اسی پلیٹ فارم سے دوشیزائیں لے اڑتے ہیں۔ مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے بھی اسی پلیٹ فارم کے دلدادہ ہیں اور ان سب کے گاہک بھی یہیں لٹ رہے ہیں لیکن آخری اور تسلیم شدہ فیصلہ یہی ہے کہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنا ہر ایک کا بنیادی انسانی حق ہے اور کسی کو اس کے استعمال سے روکنا آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کی جدید شکل اور ڈیجیٹل آمریت ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے جو سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے عوامی مقبولیت اور سستی پذیرائی حاصل کرنے کے لئے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے مختلف ویڈیوز اور تصاویر وائرل کرتے رہتے ہیں۔ یہاں وی لاگرز اور ٹک ٹاک اسٹارز آئے روز پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح جعلی اکائونٹس چلانے والوں کی ایک کثیر تعداد بھی روبہ عمل ہے جو ملک میں انتشار پھیلانے اور دوسرے کئی منفی مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا زیادہ تر استعمال سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن کرتے ہیں جو اپنے موقف کو درست ثابت کرنے اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے تضحیک آمیز کارٹونز، من گھڑت الزامات پر مبنی تحریریں، تصاویر، فیک ویڈیوز شئیر کر کے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور شرفاء و معززین کی پگڑیاں اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ اپنی رائے کو مدلل بنانے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جبکہ دوسروں کی رائے کو بے وقعت اور سطحی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ حال ہی میں صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب محترمہ عظمیٰ بخآری کی فیک نازیبا ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی جو کہ سب جانتے ہیں کہ فیک ہے مگر ان کے مخالفین اسی جھوٹ کی بنا پر ان کی محض اس بنا پر تذلیل کر رہے ہیں کہ وہ ایک عورت ہیں یعنی سوشل میڈیا جیسی جدید سہولت کو بھی ہم چودہ سو سال پرانی جہالت اور گھٹیا رذالت کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ مخالفین کی ہرزہ سرائی کے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ پارٹی لیڈر کی ناجائز قصیدہ گوئی اور بے تکی تعریف کرنا بھی ہم اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہر طرح کی غلیظ زبان، نازیبا الفاظ اور اخلاق سے گری ہوئی پوسٹوں کو مخالفین سے نسبت دے کر شیئر کر کے معاشرے میں بے چینی پھیلانے کا دھندہ عام ہے۔ ان جھوٹوں کے شر سے کسی سیاسی، سماجی، تجارتی، صحافتی، علمی اور مذہبی شخصیت کی عزت محفوظ نہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس جیسے قوانین تقریباً ایک عشرے سے نافذ ہیں۔ جس کے تحت سائبر کرائم مثلاً نفرت انگیز تقاریر، مذہبی منافرت، دھوکہ دہی، غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے، بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنے، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ، انٹرنیٹ ڈیٹا کا غلط استعمال اور موبائل فون سموں کی غیر قانونی خرید و فروخت پر عدالت کی طرف سے مختلف نوعیت کی سزائیں دی جا سکتی ہیں مگر اس نوعیت کی کسی بھی کارروائی کے آغاز پر ہی نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مین سٹریم میڈیا حرکت میں آ جاتا ہے اور آزادی اظہار رائے کی ضرورت پر زور دے کر اخلاقی پستی کے ہر اظہار کو کھلی چھٹی دیئے جانے کا شور ڈال دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں حتیٰ کہ ریاستی اداروں کی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید اور اصلاحی تحاریک و تجاویز سے کسی کو انکار نہیں ان سب معاملات میں آزاری بھی ہونی چاہیے اور اس آزادی پر قدغن ہر گز برداشت نہیں مگر اس تنقید اور مخالفت کی آڑ میں وطن دشمنی اور قومی عداوت کی ہر صورت اور ہر حربہ قابل دست اندازی قانون ہے۔ سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں امن و امان اور شرم و حیا کی فضا برقرار رکھنے کے لئے اخلاقیات اور شرم و حیا سے عاری ان نام نہاد سوشل میڈیا صارفین کی اخلاقی تربیت اور قوانین کی خلاف ورزی پر انضباطی کارروائی بھی ناگزیر ہے۔ ان قوانین کو موثر طور پر نافذ کر کے حکومت سوشل میڈیا پر پیدا ہونے والی کسی بھی قسم کی منافرت اور وطن دشمنی کا تدارک کر سکتی ہے لیکن سہل کوشی کی روایتی عادت کے تحت اگر حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر مزید پابندیاں عائد کرنے، الگ تھانے، الگ آئی جی مقرر کرنے کی خبریں آئیں گی۔ صحافیوں پر سخت پابندی لگانے کی باتیں کی جائیں گی تو عام پاکستانی بھی تشویش کا شکار ہو گا کہ حکومت نے پہلے ہی پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور ایکس پر پابندی سمیت میڈیا مالکان کو اپنی مرضی کی خبریں جاری کرنے اور اپوزیشن کی کوریج پر پابندیاں لگا رکھی ہیں، اب اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کو چھپانے اور عوامی تنقید سے بچنے کے لئے سوشل میڈیا کو بھی پابند کرنے کی قانون سازی کر رہی ہے۔ حکومتی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یہ حکومت جمہوری نہیں بلکہ فسطائیت اور فاشزم کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ حکمران مہنگائی، بدامنی، بیروزگاری اور بیرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے عوام کی آواز کے واحد پلیٹ فارم سوشل میڈیا کو بھی بند کرنے کے درپے ہے۔ حکومت پہلے ہی ٹویٹر ( ایکس) پر فروری سے پابندی عائد کر چکی ہے۔ اب فیس بک، انسٹا گرام سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پابندی قوم کو ہرگز قبول نہیں ہے۔ اب وفاقی وزیر قانون اور وزیر اطلاعات کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مزید پابندیوں کے بارے میں قانون سازی کا اعتراف عوام اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کا اعلان ہے، حکمران یاد رکھیں کہ ان سے پہلے بھی یہاں پر آمریت کے پروردہ اپنی ڈکٹیٹر شپ کو قائم دائم رکھنے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈی استعمال کر چکے لیکن پاکستان کی جری اور بہادر عوام نے ان کے تمام تر منصوبے خاک میں ملا دیئے تھے، سوشل میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے جو عوام کے مسائل کو اجاگر اور حکمرانوں کی کرپشن کو ظاہر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جبکہ وڈیروں کے ظلم جبر اور حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کو عوام کے سامنے لانے کیخلاف توانا آواز ہے اور شہباز، زرداری مافیا سوشل میڈیا کو نکیل ڈالنے کو بے چین ہے۔ سوشل میڈیا پر نظر رکھنا غلط نہیں۔ اس حوالے سے ایک نیا ادارہ، نئی فورس، تھانے بنانے پر بھی اس صورت میں اعتراض نہیں ہوگا کہ سوشل میڈیا پر فحش مواد اور نوجوان نسل کو منشیات، جوئے کی لت میں مبتلا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے سیاستدانوں، بیوروکریسی اور مقتدر قوتوں پر جائز تنقید کا گلا نہ گھونٹا جائے۔
نئے رولز کا مقصد ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف مواد کی تشہیر اور مذہبی منافرت کے خدشات کو روکنا ہے۔ حکومتی پالیسی کے مطابق سوشل میڈیا کو لگام دینے کی یہ جزوی کوشش کسی حد تک کارگر ثابت ہو سکتی ہے مگر کلی طور پر نہیں۔ اگر حکومت ابلاغ کے مثبت استعمال اور ہر طرح کی منافرت سے پاک کرنے کی خواہاں ہے تو وہ جعلی اکائونٹس کو مستقل بند کر دے کیونکہ یہ جعلی اکائونٹس چلانے والے ملک میں بدامنی و انتشار پھیلانے کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس لئے صرف رجسٹرڈ اور شناخت رکھنے والے افراد کی آئی ڈیز کو فعال کیا جائے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی صارف سوشل میڈیا ایپس پر سماجی اور سیاسی امور پر بے تکے اور خطرناک تبصرے کرے، حکومتی اداروں کی ہرزہ سرائی کرے اور معاشرے میں بے چینی اور انتشار پھیلانے کا موجب بنے تو قانونی سزا کے علاوہ اس پر ہمیشہ کے لئے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے۔
امید کی جاتی ہے کہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے متحرک ہو جائیں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی کڑی نگرانی کر کے سیاست اور صحافت کی آڑ میں انتشار پھیلانے اور وطن عزیز کو تباہی کی طرف دھکیلنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو عمل میں لایا جائے گا تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی، علاقائی، نسلی، لسانی، مذہبی منافرت اور ملک دشمن سرگرمیوں کو بام عروج تک پہنچانے کا عمل یقینی طور پر روکا جا سکے۔





