توکل

علیشبا بگٹی
کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی کی دکان مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گئی اور صرف دیواریں جلتی رہ گئیں۔ جب آگ بجھائی گئی تو لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے تاکہ اس کی تسلی دیں۔ سب حیران تھے کہ وہ مسکرا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور جیسے اس کا واحد ذریعہ معاش نہیں جلا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا ’’ ابو عبداللہ۔ تمہیں کیا ہوا ہے؟ ہم آپ کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ آپ پر بڑی مصیبت آئی ہے۔ کیا آپ نے اپنا دماغ کھو دیا ہے؟‘‘، اس نے جواب دیا ’’ میں کیوں غمگین ہوں جبکہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں اللہ کی قضا و قدر پر راضی رہوں گا تو اللہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا کرے گا۔ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا ہے اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار ہوں‘‘۔
دو ہفتے بعد، لوگ ایک بڑی اور نئی دکان دیکھ کر حیران رہ گئے جو ہر قسم کی اشیا سے بھری ہوئی تھی۔ لوگ قریب گئے تاکہ دیکھیں کہ یہ بڑی دکان کس کی ہے۔ انہوں نے ابو عبداللہ کو دکان کے اندر نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ لوگوں نے کہا۔ ’’ یہ کیسے ہوا؟ ابھی دو ہفتے پہلے آپ نے اپنی پرانی دکان کھوئی تھی اور یہ سب پیسہ کہاں سے آیا؟‘‘، ابو عبداللہ مسکرایا اور کہا ’’ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ مجھے عطا کرے گا؟ اللہ کی قسم۔ اس نے
اپنے عطا سے مجھے حیران کر دیا۔ جمعہ کی صبح میرے پاس اپنے بچوں کے کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ میری بیوی نے کہا کہ وہ اپنی بہن سے قرض لینے جا رہی ہے۔ وہ گئی اور ایک منٹ کے بعد کچھ پیسے لے کر واپس آ گئی۔ میں نے وہ پیسے لئے اور مچھلی کے بازار چلا گیا۔ میں نے ایک مچھیرے کو ایک چھوٹی سی مچھلی ہاتھ میں لئے دیکھا۔ وہ لوگوں سے 200دینار میں اسے خریدنے کے لیے التجا کر رہا تھا۔ یہ قیمت مچھلی کے لئے مناسب نہیں تھی اور کچھ لوگ صرف 50 دینار دے رہے تھے۔ میں اس کے قریب گیا اور پوچھا آپ اس کو اتنی زیادہ قیمت میں کیوں بیچ رہے ہیں؟، اس نے جواب دیا میری بیٹی بیمار ہے اور میں نے سمندر سے صرف یہ مچھلی حاصل کی ہے اور مجھے اس پیسے کی پوری ضرورت ہے تاکہ میں مکمل دوا خرید سکوں۔ میں اس کے حال اور حالات پر افسوس کیا اور کہا میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کے طور پر لے لوں گا۔ میں نے اسے 200دینار دئیے اور مچھلی لے لی۔ پھر میں گھر واپس آیا اور اپنی بیوی سے اسے تیار کرنے کو کہا۔ پھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا۔ جب میں مسجد سے واپس آیا تو میری بیوی نے کہا دیکھو، مچھلی کی پیٹ میں کیا ملا؟ یہ نو خوبصورت پتھر ہیں۔ میں نے انہیں دیکھا اور کہا واقعی یہ خوبصورت ہیں۔ ہم انہیں سنبھال کر رکھیں گے۔ دو دن بعد میری بیٹی اور اس کا شوہر ہمیں ملنے آئے۔ میں نے وہ پتھر نکالے اور اپنے داماد کو دکھائے۔ اس نے انہیں دیکھا اور کہا یہ پتھر نہیں ہیں، یہ بہت قیمتی موتی ہیں۔ ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ آپ بہت امیر ہو جائیں گے۔ میرے داماد نے تاجروں اور ماہرین سے رابطہ کیا اور میں یقین نہیں کر سکتا تھا۔ وہ انہیں خریدنے کے لیے مقابلہ کر رہے تھے ۔ میں نے صرف تین بیچے اور چھ موتی باقی رکھے۔ اللہ نے میری مدد کی اور مجھے جو کچھ کھویا تھا، اس کا عوض دیا۔ اگلے دن، میں اس مچھیرے کو تلاش کرنے بازار گیا تاکہ اللہ کے فضل سے اسے بھی کچھ دے سکوں۔ لیکن میں نے اسے نہیں پایا۔ جب بھی مچھلی والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو کسی نے کہا کہ یہاں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتے۔ تب میں نے سمجھا کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک تحفہ تھا جو اس آدمی کی شکل میں آیا تھا‘‘۔
جب آپ کا اللہ پر حسن ظن سچا ہوتا ہے تو وہ آپ کو عطا اور خوشیوں سے حیران کر دیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ اپنے ہر حال میں اللہ پر توکل رکھیں۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
ابودائود اور ترمذی میں درج حدیث ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے، ’’ میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسر آ سکتی ہے نہ قوت۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے‘‘ ۔۔۔ تو اس کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تو نے ہدایت پائی ۔ تیری کفالت کردی گئی۔ تجھے ہر شر سے بچا دیا گیا اور شیطان اس سے دور ہٹ جاتاہے‘‘۔
توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات کو سر انجام دینے کیلئے اسباب و تدابیر اختیار کرتے ہوئے ان کی کامیابی کیلئے صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا جائے اور ان معاملات کا انجام اس کے سپرد کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات میں اسے کافی ہو جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں توکل کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اسباب و ذرائع کو ترک کر دے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا توکل پر رہے اور انتظار کرے کہ میری کوشش اور محنت کے بغیر اللہ تعالیٰ میرا کام پورا کر دیں گے۔ قرآن و حدیث کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اسباب و ذرائع اختیار کرے۔ حالات کا مکمل جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرے۔ جو اقدامات کرنے چاہیے وہ اقدامات کرے غرض یہ کہ اپنی طرف سے مکمل تیاری رکھے اور پھر اس کے بعد اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ ترمذی میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا۔ میں اپنی اونٹنی کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اسے باندھو اور پھر توکل کرو۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ اگر تم اللہ پر ایسے توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے۔ جو صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر واپس ہوتے ہیں‘‘۔







