Column

مودی ہندوستان کا چانکیہ

ایم فاروق قمر

بھارتی تاریخ کا سیاہ دھبہ بننے والے نریندر مودی کی انسانیت دشمنی بالخصوص پرستاران توحید کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کی تمنا میں عالمی رائے عامہ کے نزدیک نفرت کی علامت بن چکاہے۔
نریندر مودی کا خمیر ریاکاری جس انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس سے اٹھا ہے۔ اس انتہا پسند ہندو تنظیم نہیں بلکہ انسانی معاشرے میں منافقت، ریاکاری ، انسانیت دشمنی، بددیانتی، فریب اور دھوکا بازی سے عبارت ہر طرح کی ننگ انسانیت اور ننگ آدمیت نظریات کی حامل راشٹریہ سیوک سنگھ کے اس منشور کو طشت ازبام کرنے کی ضرورت ہے جس کا اسکے ارکان حلف اٹھاتے ہیں اور اسے ہندو قوم کے واحد فلاسفر چانکیہ نے تخلیق کیا ہوا ہے۔ چانکیہ مکاری اور فریب کاری کا مبلغ تھا۔ چانکیہ نے نہایت فخر سے خود کو ’’ کوٹلیا‘‘ کا نام دیا تھا، خود اس کی قوم کے لوگ بھی اسے کوٹلیا ہی کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ’’ کوٹلیا‘‘ کے معنی مکار اور فریب کار کے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چانکیہ جس قدر مکار تھا۔ اسی قدر فتنہ پرور بھی تھا۔ اس نے سیاست پر ایک کتاب بھی لکھی ہوئی ہے جس کا نام ’’ ارتھ شاستر‘‘ ہے۔ یہ کتاب سنسکرت میں تھی۔ بعد میں اسکے انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہوئے۔ اس کتاب میں کوٹلیا نے سیاست کے جو اصول اپنی قوم کیلئے متعین کئے ہوتے ہیں۔ ان میں پہلا اصول یہ ہے کہ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی سرد نہ ہونے پائے۔ دوسرا اصول یہ بتایا گیا ہے کہ ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک روا رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے۔ تمام ہمسائیوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے۔ تیسرا اصول یہ بتایا گیا ہے کہ دوستانہ تعلقات غیر ہمسایہ سلطنتوں سے قائم کئے جائیں جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنا مفاد پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔
نریندر مودی کٹر ہندو ہیں اور ان کی سیاست ہندو انتہاپسندی کے گرد گھومتی ہے۔ قدیم ہندوستان کا فلسفی اور مفکر چانکیہ ان کا ہیرو ہے۔ چانکیہ معروف کتاب ’’ ارتھ شاستر‘‘ کا مصنف ہے۔ وہ چندر گپت موریہ کا استاد تھا۔
اسے بھارت میں پولیٹیکل سائنس کا سب سے بڑا گرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ چانکیہ کے نزدیک اقتدار کے لئے کسی بھی اصول کو توڑا جا سکتا ہے۔ مکاری اور چالبازی کے ہتھکنڈوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خراب رکھنا اور پڑوسیوں کے پڑوسیوں کو دوست بنانا چانکیہ کے اصولوں میں شامل تھا۔ اس کے متعلق ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ چندر گپت موریہ اور پباتا اس کے شاگرد تھے۔
دونوں بہت ہونہار تھے۔ چانکیہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے دونوں کو ریشم کے دھاگے دیئے اور انہیں ہدایت کی کہ وہ انہیں گلے میں پہن لیں۔ ایک روز چانکیہ نے دیکھا کہ چندر گپت سو رہا ہے۔ اس نے پباتا سے کہا کہ وہ چندر گپت کے سر سے وہ دھاگا اس طرح نکالے کہ اسے پتہ نہ چلے۔ پباتا نے خاصی کوشش کی، مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔
چند روز بعد پباتا سو رہا تھا۔ چانکیہ نے چندرگپت سے کہا کہ وہ پباتا کے گلے سے وہ دھاگا اُتارے۔ چندر گپت موریہ نے حکم کی تعمیل کے لئے پباتا کا سر قلم کیا اور دھاگا اُتار کر استاد کے سپرد کر دیا۔
چانکیہ نے ایسی خطرناک حرکت کرنے پر اپنے شاگرد کو ڈانٹنے کی بجائے شاباش دی اور اسے مستقبل کا بادشاہ بنانے کے لئے کوشاں ہو گیا۔ چانکیہ کی مکار فطرت کی عکاسی ایک دوسری کہانی سے بھی ہوتی ہے جس میں ایک جنگل کی گھاس نے اس کا پائوں زخمی کر دیاتھا۔ چانکیہ نے گھاس کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور اس کی جڑوں میں گڑ کا شربت ڈال دیا۔
مٹھاس کی وجہ سے کیڑے مکوڑے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے گھاس کو تباہ کر دیا۔ چانکیہ کے متعلق ایسی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں جو اس کی مکارانہ فطرت کی خبر دیتی ہیں۔
اس وقت نندہ خاندان کی حکومت تھی۔ نندہ حکمران نے چانکیہ کی تذلیل کی تھی۔ اس تذلیل کا بدلہ لینے کے لئے چانکیہ نے چندر گپت کو حکمران بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کیمیا گری کا فن جانتا تھا۔ اس نے چند سکوں سے بے پناہ سونے کے سکے بنا لئے اور پھر ان کی مدد سے ایک فوج تیار کر لی۔
اس فوج کے ذریعے اس نے نندہ کے دارالحکومت پر حملہ کیا، مگر اسے بہت بری شکست ہوئی۔ بھیس بدل کر دونوں جنگل میں گھوم رہے تھے کہ ایک دن چانکیہ نے جنگ کا اہم ترین اصول دریافت کیا۔ چانکیہ اور چندر گپت نے ایک عورت کو اپنے بچے کو ڈانٹتے ہوئے سنا۔ بچے نے پلیٹ کے درمیان سے چاول اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی انگلیاں جلا ڈالی تھیں۔ عورت نے کہا کہ اس نے بھی چانکیہ جیسی غلطی کی ہے، جس نے سرحدی علاقوں پر قبضہ کرنے سے پہلے دارالحکومت پر حملہ کر دیا تھا۔
عورت بچے کو سمجھا رہی تھی کہ اسے کناروں سے چاول اٹھانے چاہئے تھے، جہاں وہ نسبتاً کم گرم ہوتے ہیں۔ چانکیہ نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا اور جنگ کی نئی حکمت عملی چاولوں کی اس پلیٹ کو مدنظر رکھ کر بنائی۔ اس نے ایک پہاڑی راجہ سے تعاون کر کے اسے سرحدی علاقوں پر حملے کر کے نندہ کی حکومت کو کمزور کیا اور آخر میں ایک بھرپور حملے کے ساتھ دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔
بھارت نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملے کئے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی خبریں آئے روز پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بالاکوٹ پر اس نے بم بھی گرائے، جس کے متعلق اس کا دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ اس نے کسی کیمپ کو تباہ کیا ہے اور وہاں ساڑھے تین سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس طرح بھارت نے پاکستان کی حدود میں گھسنے کی بھی بہت کوششیں کی ہیں۔
بھارتی آبدوز نے آبی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ناکام کوشش کی۔ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے وطن کے دفاع میں شاندار کارنامے سرانجام دیئے، مگر ہمیں ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ مودی انتخابات کے روز تک خطروں سے کھیل سکتا ہے۔ بھارتی کوششوں کو آپ چاول کی پلیٹ کے بیرونی کناروں پر حملے بھی قرار دے سکتے ہیں۔
چانکیہ کا فلسفہ مودی کے ایک دوسرے انداز سے بھی نظر آیا ہے۔ چانکیہ دشمن کے دشمن کو اپنا سب سے بڑا دوست قرار دیتا تھا۔
چانکیہ کے جدید شاگرد نریندر مودی سے کسی بھی گھٹیا اور بھیانک حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے۔
مودی چانکیہ کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے، کم و بیش سوا ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ کر کے وہاں کے بچوں ، جوانوں، عورتوں اور ضعیفوں کیلئے اشیائے خورو نوش اور ادویات کی عدم فراہمی کے اذیت ناک فضا پیدا کر کے سراسیمگی کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کی کشمیری قیادت پابند سلاسل ہے۔ وہاں کی جیلیں مودی چانکیہ کی بہیمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہر عمر کے کشمیری مردوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسے میں مودی کی طرف سے اپنے فریب کار فلاسفر چانکیہ کے اصولوں پر عمل کر کے سکون کی زندگی کی تمنا کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔

جواب دیں

Back to top button