Column

اشرافیہ کی مفت بجلی و پٹرول ختم کرنے کا فیصلہ

ضیاء الحق سرحدی
وزارت توانائی نے آئی پی پیز کے خلاف ملک گیر آگاہی مہم کے بعد ایمرجنسی پلان تیار کر لیا گیا ہے۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے، بیوروکریٹس، ججز اور پارلمینٹرینز سمیت سب کی مفت بجلی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ دوسرے مرحلے میں مفت پیٹرول کی سہولت بھی واپس لے لی جائے گی۔ ملک اس وقت شدید مالی دبائو اور بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا، انقلابی اقدامات سے ہی مستقل ڈیفالٹ سے بچا جا سکتا، برآمدات 60 ارب ڈالر لے جانا ناگزیر ہو گیا۔ ذرائع انرجی ڈویژن کے مطابق صرف انڈسٹری اور کا روبار کو جائز سہولتیں دی جائیں گی جبکہ فیکٹریوں میں ایم ڈی آئی چارجز کو کم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ انرجی ڈویژن کا کہنا ہے کہ نیپرا اور اوگرا کی کارکردگی بھی جانچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( ایف پی سی سی آئی) نے آئی پی پیز کپیسٹی چارجز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ جولائی سے ستمبر تک گھر یلو صارفین کے بجلی کے بلوں پر سیلز ٹیکس اور ایڈوانس انکم ٹیکس ہٹا دے تو گھریلو صارف کابل 24فیصد کم ہو جائے گا۔
حکومت اپنے اخراجات میں کمی کی قربانی بھی دے، بجلی کے بلز نہ صرف پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا باعث ہیں بلکہ ن لیگ کو عوام سے دور کر رہے ہیں، عوام سے قربانی لینے والے حکمران بھی قربانی دیں۔ کپیسیٹی چارجز میں 46فیصد رقم وفاقی حکومت کو جاتی ہے، فرنس آئل اور ایل این جی پر ٹیکس لیا جارہا ہے، حکومتی ملکیت کے چار ایل این جی پلانٹس ٹیکس کم کیا جائے، جو پاور پلانٹس گرڈ پر چل رہے ہیں ان کے ایندھن پر ٹیکس ختم کیا جائے۔ پاکستان میں سرکاری اخراجات میں کمی سب سی پہلی ضرورت ہے اس وقت افسروں کو جو مراعات اور سہولیات میسر ہیں ان پر اٹھنے والے اخراجات قومی خزانے پر بوجھ ہیں مگر کوئی ان میں کمی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ حکومتی امور میں بہتری کے لئے سمارٹ گورنس کی ضرورت ہے۔ افسروں کی تعداد کم کی جائے۔ صوابدیدی اختیارات ختم کرنا ہوں گے۔ تمام سرکاری امور کو آن لائن کیا جائے۔ حکومت کو مختلف وزارتیں چلانے کے لئے پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ جن محکموں میں ضرورت سے زیادہ افراد کو ملازمت مل گئی ہے لہٰذا ان کی نوکر یوں ختم کئے بغیر ان کو دیگر محکموں میں ایڈجسٹ کیا جائے۔ حکومت اور وزیر اعظم اس معاملے میں عوام کو بھی اعتماد میں لیں تا کہ عوام کو علم ہو کہ حکومت کیا کرنے جارہی ہے اور وہ کسی ابہام کا شکار نہ ہو۔
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس نے صنعتکار سے لئے کر عام آدمی تک کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے وہ بجلی کی قیمت میں بے مہابا اضافہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے صرف غریب مہنگائی سے پریشان ہوا کرتا تھا، اس کے بعد آہستہ آہستہ متوسط طبقے کی پریشانی بڑھی، اب تو حد ہو گئی ہے کہ بجلی کی قیمتوں کی وجہ سے اپر میڈل کلاس سمیت امیر طبقہ بھی پریشان ہے صنعتیں تک بند ہونا شروع ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے روز گار ختم ہو رہا ہے اور خط غربت کے نیچے جانے
والے شہریوں کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ابھی چند ما قبل تک یہ شرح50فیصد کے قریب
پہنچ چکی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہے مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کیلئے نا قابل برداشت ہو چکی ہے دوسری جانب حکومتی نا اہلی اور آئی پی پیز کی غلط بیانیوں کی وجہ سے سیکڑوں اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ آئی پی پیز معاہدوں کے تحت پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ لاگت 60روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ جنوبی ایشیاء میں فی یونٹ بجلی 18روپے ہے۔ بجلی کی زیادہ قیمت شہر یوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور تمام کاروبار کو دیوالیہ کر رہی ہے۔ بجلی پاکستان کی صنعتوں کیلئے سب سے اہم مسئلہ ہے اور یہ براہ راست 24کروڑ عوام کی زندگیوں کو متاثر کرنے لگی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک جانب حکومت عوام کی خون پسینے کی کمائی آئی پی پیز کو بھتے کی صورت دے رہی ہے تو دوسری جانب اشرافیہ خصوصاً ججوں اور بیوروکریسی کو مفت بجلی اور مفت پیٹرول دے کر عام آدمی ہر 770ارب کا مستقل بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اس وقت جبکہ ملک بھر میں آئی پی پیز کی لوٹ مار اور مفت بجلی کی عیاشیوں کے چرچے ہیں، حکومت کی جانب سے دونوں معاملات پر فیصلہ کرنے کے لئے کمیٹی کا قیام ایک خوش آئند امر ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ کافی نہیں ہے، عام آدمی اس وقت تک مطمئن نہیں ہو سکتا جب تک کہ حکومت اس سلسلہ میں با قاعدہ حکم نامہ جاری نہیں کر دیتی۔ حالیہ حکمران 2022سے بر سر اقتدار ہیں، اس وقت سے ان کی جانب سے کفایت شعاری پالیسی، حکومتی اخراجات کم کرنے اور پیٹ پر پتھر باندھنے کے بیانات تسلسل کے ساتھ آ رہے ہیں، لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ کفایت شعاری صرف حکومت کے بیانات تک محدود ہے اس کی عملی صورت آج تک کہیں دکھائی نہیں دی۔ اس شہرت کے ساتھ آئی پی پیز اور مفت بجلی کی فراہمی بند کرنے کا محض فیصلہ، منظوری یا عند یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں جلد از جلد باقاعدہ حکم جاری کرے اور اس سے بچنے والی رقم سے عوام کو بجلی کے بلوں میں سہولت دی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں پر سے سیلز ٹیکس اور ایڈوانس ٹیکس کا بھی خاتمہ کیا جانا چاہئے تا کہ عوام کو سہولت مل سکے، ورنہ موجودہ صورتحال میں امیر سے غریب تک ہر شخص کو بجلی کے بل نے پریشان کر رکھا ہے، ایسا نہ ہو کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں، اگر ایسا ہو گیا تو کوئی بھی صورتحال کو سنبھال نہیں سکے گا۔ بہترین راستہ یہی ہے کہ حکومت اپنے اس فیصلہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

جواب دیں

Back to top button