
سی ایم رضوان
پاکستان میں جہاں بنیادی، قومی معاملات میں بھی عوام، ریاست اور اداروں کے اندر تقسیم کی بات ہوتی ہے وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کے اندر بھی حد درجہ پولرائزیشن ہے اور یہ رجحان یقینی طور پر بقائے باہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی میں کوئی بھی ادارہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی یا مخالف نہیں ہوتا تھا تاہم اب یہ تقسیم کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ تقسیم 2014ء میں شروع ہوئی مگر 2018ء کے بعد عمران خان کی سیاسی مقبولیت اور ان کے دورِ حکومت میں میڈیا کے دو واضح کیمپس بن چکے تھے یعنی تحریک انصاف کے حامی اور تحریک انصاف کے مخالف۔ یہ تقسیم اب بھی اسی طرح چلتی آ رہی ہے اور اس تقسیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دونوں اطراف میں پیسے اور مراعات کا لالچ کارفرما ہے۔ یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ یہ تقسیم پی ٹی آئی دور حکومت کی اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالف گروہ کی وجہ سے تو تھی ہی مگر ان میں بٹوارے کی بعض سیاسی وجوہات بھی تھیں اور کچھ بقا کی وجوہات بھی تھیں جبکہ وقت کے ساتھ ان کی کاروباری وجوہات بھی ظاہر ہوئیں۔ مثال کے طور پر اگر سرکاری اشتہارات پر انحصار آپ کے کاروباری ماڈل کا حصہ ہے تو آپ کو حکومتِ وقت، فوجی اداروں اور ان کی فلموں سے کچھ نہ کچھ معاوضہ ملتا رہتا ہے۔ اس بزنس ماڈل کی وجہ سے بہت زیادہ جھکائو آ جاتا ہے۔ ظاہر ہے پھر وہ آزاد صحافت نہیں رہتی اور اگر اسے آزاد صحافت مان بھی لیا جائے تو اس امر سے انکار ممکن ہی نہیں کہ اس طرح کی صحافت کے اثرات مثبت نہیں ہوتے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں میڈیا میں یہ تقسیم آزادانہ صحافت سے ہی جڑی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ پانچ آزاد صحافی بتائیں جو مین سٹریم میڈیا پر آتے ہیں؟ یقیناً ایک یا دو نام لینے کے بعد خاموشی ہو جائے گی یعنی مین سٹریم کے سب صحافی اپنے اپنے گروپ یا مفاد کی بات کرتے ہیں۔ اصول، قانون یا حق کی بات کوئی نہیں کرتا اور ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے بیان کردہ موقف کو ہی سچ قرار دینے کے لئے دلائل یا زور دیا جاتا ہے اور اگر مگر سے کام لے کر اپنی بات کی جاتی ہے۔ ٹھیک کو ٹھیک، غلط کو غلط کہنے یا کھل کر بات کرنے کا مرحلہ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کو پہلے سے ہی پتا ہوتا ہے کہ ایک صحافی فلاں سیاسی جماعت کے حوالے سے اپنا کیا سیاسی نقطہ نظر بیان کرے گا۔ لہٰذا اب سچ جھوٹ کا موازنہ نہیں ریٹنگ کا مقابلہ ہے جس بات کی ریٹنگ زیادہ ہو گی وہ ایک قسم کا سچ کہلاتے گی اور جو ریٹنگ میں پیچھے رہ گئی وہ ایک قسم کا جھوٹ یا غیر معروف سچ قرار پائے گی۔ یار لوگوں نے اس طرح کے سچ کو منوانے کے لئے روبوٹک لائیکس اور ڈس لائیکس رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح ایک خاص گروہ نہ صرف اپنا بیان کردہ جھوٹ کو سچ کے طور پر منوا رہا ہے بلکہ نوٹ بھی کما رہا ہے۔ ایسے میں سچی خبر کے پیچھے کون بھاگے گا اور سچی خبر دے کر کیا کمائی کرے گا جبکہ جھوٹ ہی بکتا ہو یا پسند کیا جاتا ہو۔
بعض تجزیہ کار میڈیا کی اس تقسیم کی وجہ سیاسی تقسیم کو قرار دیتے ہیں جس کا فائدہ حکومتوں اور ریاستی اداروں نے اٹھایا کیونکہ میڈیا ہائوسز کی ترجیح اپنے مالی مفادات ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ایک ہی موضوع پر صحافیوں کے موقف سے ہو بہو یکسانیت ظاہر ہوتی ہے۔ چاہے بات اخبارات کی ہو یا سوشل میڈیا کی۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافی سیاسی جماعتوں کے پروپیگنڈا کا حصہ بنتے ہیں یا اپنی صحافت میں کوئی مخصوص بیانیہ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ الیکشن 2024کے نتائج کا جلد یا بدیر اعلان اور جزوی کامیابی یا ناکامی کو کلی کامیابی یا ناکامی قرار دے کر چند ٹی وی چینز نے جو تقسیم پیدا کی تھی اور جو شوشہ چھوڑا تھا آج پورا پاکستان اس سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ خبر پر جبر کی ایک صورت یہ ہے کہ بعض واٹس ایپ گروپس سے پھیلنے والی غیر مصدقہ خبریں وی لاگرز تک پہنچتی ہیں ساتھ ہی ان خبروں کے ساتھ پراپیگنڈا اور مخصوص نتائج کے حصول کے لئے ذہن سازی کا مقصد کام کرتا ہے اور جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند ہفتوں سے گھروں اور دکانوں پر کوڑا ٹیکس لگانے کا پنجاب حکومت کا اقدام اٹھانے کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس پر مختلف واٹس ایپ گروپوں میں پوسٹیں شیئر کی جاتی رہیں۔ اب اس کو ایک نئی شکل دینے کے لئے مجوزہ کوڑا ٹیکس کے ریٹس بھی دیئے جا رہے ہیں مگر اس کے ساتھ حکومت کا جاری کردہ کوئی نوٹیفکیشن نہیں دیا جا رہا۔ کیونکہ ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں ہوا۔ مطلب یہ کہ یہ خبر بالجبر کی ایک مثال ہے لوگوں کو یہ جھوٹی خبر بار بار دی جا رہی ہے تاکہ پنجاب حکومت پر جھوٹی سچی تنقید چلتی رہے، اسی طرح بعض وی لاگرز کے گروپس بنے ہوئے ہیں۔ جو پہلے ان گروپس پر کسی خاص پروپیگنڈے پر طبع آزمائی کرتے ہیں اور پھر ایک مخصوص رائے بن جانے کے بعد اسی پراپیگنڈے پر وی لاگز بھی جھاڑ دیتے ہیں چونکہ پہلے سے اس پراپیگنڈے سے متعلق لوگوں کی دلچسپی موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ ایک بار اس وی لاگ کو دیکھتے ضرور ہیں یوں انہیں ریٹنگ مل جاتی ہے مگر اس سارے پراسس میں خبر کے ساتھ جو جبر ہوتا ہے وہ قدرت ہی جانتی ہے۔ اس کے علاوہ چند وی لاگرز ایک ہی موضوع پر ایک ہی زاویے سے اپنے وی لاگز کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم عام عوام میں اب اس رجحان کو پہچاننے کی بھی صلاحیت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ہر جماعت اور ہر محکمہ چاہتا ہے کہ اس کے مفاد میں خبریں چلیں تاہم یہ تو صحافی کا کام ہے کہ خبر کی تفتیش کرے اور اس کے بعد اس کو آگے پھیلائے۔ تاہم اس کے باوجود صحافیوں کی اکثریت ادھر ہیں یا ادھر ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اگر ایک صحافی کسی سیاسی جماعت کے موقف کو ٹھیک سمجھتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شاید وہ جماعت انہیں فیڈ کر رہی ہے لیکن اس سے یہ تاثر تو بہرحال جائے گا کہ وہ اس ( پارٹی) کی حمایت کر رہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس وقت کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک روز میڈیا کو بلا کر کہا کہ آپ نے چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کرنی ہے۔ پھر پی ٹی آئی حکومت کے حوالے سے یہ مثبت رپورٹنگ ہوتی بھی رہی۔ اس کی مخالفت میں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان دنوں ( اینکر پرسن) سلیم صافی اور طلعت حسین کو آف ایئر کر دیا گیا۔ صحافیوں کو ان اقسام کی ہدایات کا دعویٰ متعدد صحافیوں کی جانب سے کیا گیا تاہم آصف غفور کے پیشرو میجر جنرل بابر افتخار نے جنوری 2021کی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ بعد ازاں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے اپنی نوعیت کی پہلی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’ گزشتہ سال (2021ء میں) ادارے نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست سے باہر نکل جائیں۔ یہ صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں تھا۔ اس پر کافی بحث ہوئی، ہم نے یہ فیصلہ ملک کے مفاد میں کیا‘۔ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات اور پالیسیاں ہیں مگر اس مشق میں خبر پر یقین نام کی چیز عنقا ہو جاتی ہے۔ اداروں کی ان پالیسیوں پر تنقید بجا ہے مگر ان اداروں کے افسران کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینا کسی صورت بھی روا نہیں سمجھنا چاہیے لیکن میڈیا کے ادارے ایسا کرنے والے مخصوص صحافیوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور بعض عناصر کی جانب سے ان اداروں کو اشتہارات کے ذریعے خوش بھی رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی لائن کا تعین بھی ایسی خبروں سے ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خبریں آپ کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایکسکلوسیو کے طور پر ملتی ہیں۔ ظاہر ہے ان سے رائے عامہ اور ذہن سازی متاثر بھی ہوتی ہے۔ اس طرح اصل خبر پر جبر اور جعلی خبر کا جبر جاری رہتا ہے۔





