ایڈیٹر کی ڈاک مزاروں، آستانوں اور عاملوں کو رجسٹرڈ کیا جائے

ہمارے ملک میں بھی جعلی عاملوں اور نام نہاد پیروں فقیروں کی لوٹ ما ر سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ عوام میں توہم پرستی اور حکومت کی سطح پر اس شعبہ کی نگرانی یا باز پرس کرنے کے لئے کسی ادارے کا نہ ہونا ہے۔ جعلی عاملوں کے آستانے بڑے دھڑلے سے لوٹ مار اور اسلامی اقدار میں نقب زنی کرتے ہیں، اخبارات اور تشہیر کے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں اور پھر جب ان کے مریدوں کی تعداد بڑھنے لگ جاتی ہے تو مقامی سیاستدان بھی ان کی طرف متوجہ ہو کر ووٹ لینے کی خاطر ان کے ساتھ تعلقات استوار کر لیتے ہیں، نتیجہ میں مقامی انتظامیہ بھی ان سے خوف کھانے لگ جاتی ہے، یہ لوگ ماہانہ لاکھوں کماتے ہیں اور ایک پیسہ بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ جعلی عامل اپنے قبضہ میں موکل ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، اپنے عملیات کے ذریعے محبوب قدموں میں لانے دشمن کو زیر کرنے، جن نکالنے، کسی کے گھر میں آگ لگانے یا بجھانے اور خاندانی جھگڑے نمٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان پڑھ اور سادہ لوگ تو ان کے چکر میں آ ہی جاتے ہیں اور مرادیں پانے کے لئے اپنی جمع پونجی لٹا لیتے ہیں مگر مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے اور سرکاری عہدہ کے حامل افراد بھی ان کے آ ستانوں پر سرکاری گاڑیوں پر حاضری دے کر ان کے مذموم کاروبار کو تقویت دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جعلی عاملوں کے موکل قبضہ میں کرنے اور جنات کو قابو کرنے کی باتوں سے مجھے تجسس اور حیرانگی بھی ہوتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں لاکھوں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار ہیں، وہ اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد میں شہید ہو رہے ہیں۔ ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور گھمیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شائد یہ عامل محب وطن نہیں ہیں، جو از خود تو عوام کے مسائل حل نہیں کر رہے، اب انہیں حکومت کے ڈنڈے کی ضرورت ہے، ایسا طبقہ اگر کالا باغ ڈیم بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا، فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل کرانے اور عوامی مسائل کے حل کرانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، چونکہ قرآن پاک میں جادو، حسد اور جنات کا ذکر بھی موجود ہے، اس لئے ان کے حوالے دے کر جعلی عامل اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو قائل کر لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزارت مذہبی امور کے ذریعے اسلامی نظریات کے حامل علماء کرام کا ایک بورڈ تشکیل دیکر مذکورہ شعبہ کسی ضابطہ اور کسی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے اور صرف ان افراد کو رجسٹرڈ کر کے کام کرنے دیا جائے جو تعلیم یافتہ، دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ حکومت اگر مزاروں اور آستانوں کو بھی رجسٹرڈ کر لے تو جعلی پیروں اور عاملوں کا محاسبہ ہو گا اور انہیں ٹیکس نیٹ ورک میں لانے سے حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ مشورہ یہ بھی ہے کہ ملکی قرضے اتارنے کے لئے آستانوں اور مزاروں کی ایک چوتھائی آمدن بطور عطیہ وصول کی جائے تو ملک کی مالی مشکلات میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔ زاہد رئوف کمبوہ،غلہ منڈی گوجرہ ( ٹوبہ ٹیک سنگھ)





