عمران خان دسمبر میں وزیرِ اعظم بننے جارہے ہیں؟

رفیع صحرائی
جناب اسد قیصر نے میڈیا نمائندگان سے پریس کانفرنس کے دوران یہ بات کہی ہے کہ دسمبر میں ان کے قائد عمران خان نہ صرف جیل سے باہر ہوں گے بلکہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی بن جائیں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مزید وضاحت نہیں کی کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کی کس سے بات ہوئی ہے۔ کس نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
گو پاکستان ناممکنات اور معجزوں کی سرزمین ہے۔ بظاہر ناممکن کام بھی یہاں پلک جھپکتے میں ہو جایا کرتے ہیں اور واضح ہوتے ہوئے نظر آنے والے معاملات بھی کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔ مگر جناب اسد قیصر کی بات فی الحال خوش فہمی کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ پی ٹی آئی کے پاس اس وقت صرف 39ایم این اے ہیں۔ اگر ان کے کلیم کے مطابق یہ تعداد 82 بھی ہو جائے تو حکومت سازی سے وہ کوسوں نہیں بلکہ سیکڑوں میل دور کھڑے ہوں گے۔ ممکنہ طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ چھوڑ دے۔ لیکن تعداد تو پھر بھی پوری نہیں ہو گی۔ لازمی سی بات ہے کہ حکومت سازی کے لیے مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کو بھی ساتھ ملانا پڑے گا۔ ایسی صورت میں جناب شہباز شریف کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے انہیں گھر بھیج کر نئی اتحادی حکومت بن سکتی ہے۔
اگر ایسا ہو بھی جائے توں کیا جناب عمران خان اس اتحادی حکومت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب قبول کر لیں گے؟ یہ ایک بڑا اور اہم سوال ہے۔ اگر عمران خان کے گزشتہ تجربہ کو دیکھا جائے تو 2018میں بھی انہیں سادہ اکثریت حاصل نہ تھی۔ صرف چند سیٹوں کی کمی کی وجہ سے انہیں بار بار ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور ق لیگ کی طرف سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی بلیک میلنگ بھی برداشت کرنا پڑی اور اپنے مزاج کے برخلاف ان کے سامنے جھکنا بھی پڑا۔ موجودہ صورتِ حال میں تو ان کے پاس سادہ اکثریت سے آدھی سیٹیں بھی نہیں ہیں۔ وہ نوے سے سو کے درمیان دوسری پارٹیوں کے ایم این ایز کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کی نادانی کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ ان کی ساری سیاسی جدوجہد مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور گزشتہ دو سال میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیے پر مبنی ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کو ان کے کارکن کیسے ہضم کریں گے؟ ان کی ساری جدوجہد رائیگاں اور کریڈیبلٹی زمین بوس ہو جائے گی۔
ایک اور رکاوٹ بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں کھڑی ہے۔ وہ ہے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جاری کشمکش، اس وقت یہ دونوں ادارے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سانحہ 9مئی ہے۔ ذاتی حملے اور نقصان کو بھلایا جا سکتا ہے لیکن ادارے پر حملے کو بھلایا جا سکتا ہے نہ معاف کیا جا سکتا ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی ذہن میں رکھیں جن پر فوجی عدالتوں میں 9مئی کے کیس چل رہے ہیں۔ میڈیا تو دور کی بات ہے ان ملزمان کے گھر والوں کو بھی نہیں پتا کہ ان کے پیاروں پر کیا بیت رہی ہے۔ فوج اپنے مجرموں کو معاف نہیں کیا کرتی۔
عمران خان کے یکے بعد دیگرے تین عدد معافی ناموں بعنوان’’ نیوٹرل ہو جائیں‘‘ پر غور کیا جائے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔
ماضی میں یہی عمران خان کہا کرتے تھے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ان کی طرف سے فوج کے سربراہ کو جنگل کا بادشاہ کہہ کر پکارا گیا تھا۔ اتنی جلدی یہ دراڑیں آپس میں ملنا ممکن نہیں ہے۔
اب سیاسی پہلو کو دیکھیں تو جناب آصف زرداری نے مسلم لیگ ن سے بہت کچھ حاصل کر رکھا ہے۔ ملک کی صدارت، دو صوبوں کی گورنر شپ، سینٹ کی چیئرمین شپ اور بے شمار اداروں کی سربراہی ان کے حصے میں آئی ہے۔ وفاقی وزارتیں وہ جب چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا عمران خان اس سے بڑھ کر آصف زرداری کو کچھ دے پائیں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہو پائے گا۔
درج بالا حالات کی روشنی میں عمران خان کے لیے دسمبر میں برسرِ اقتدار آنا بہت مشکل لگ رہا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی نے تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور لیڈرشپ کو مطمئن کرنے اور کسی ممکنہ بڑے احتجاج سے بچنے کے لیے جناب اسد قیصر کو لالی پاپ دے دیا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے کارکنوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے جناب اسد عمر نے خود ہی یہ تھیوری تشکیل دے لی ہو۔
ایک اور صورت جس سے عمران خان برسرِ اقتدار آ سکتے ہیں، نئے الیکشن کے انعقاد کی ہے جو فی الحال دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ جناب محمود اچکزئی نے تین ماہ کے لیے ٹیکنو کریٹ کی حکومت اور پھر انتخابات کا فارمولا پیش کیا ہے۔ انہیں شاید جنرل ضیاء الحق والے 90دن یاد نہیں رہے۔ دور کیوں جائیے، فروری کے الیکشن سے قبل والی نگران حکومتوں کی طوالت ہی کو دیکھ لیجیے۔ سابق چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود صرف پنجاب میں ہی الیکشن کروانے میں بری طرح ناکام ہو گئے تھے۔
اپنی تمام تر ناکامیوں، کمزوریوں اور سخت فیصلوں کے باوجود فی الحال موجودہ حکومت کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔





