محترمہ فاطمہ جناح ۔۔۔ تحریک پاکستان کا روشن وتابناک کردار

محمد ساجد قریشی الہاشمی
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایک عہد ساز شخصیت تھیں۔ آپ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی خواتین کے لیے جدوجہد اور کردار و عمل کی روشن مثال تھیں۔ آپ نے تحریک پاکستان کے جاں گسل مراحل میں انتہائی پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ نہایت شاندار کردار ادا کیا اور اپنے آہنی عزم و حوصلے سے تمام خواتین کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک تابناک نمونہ پیش کیا اور ان میں بھی اپنے آپ کو بھرپور طور پر منوانے کے لیے ہمت و جرات پیدا کی۔ جس زمانے میں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا تو دور کی بات بلکہ گھروں سے باہر نکلنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن مادر ملت نے اپنی قابلیت اور استقامت سے اس تصور کو غلط ثابت کر دکھایا اور نہ صرف اس دور کی خواتین بلکہ آنے والے ادوار کی تمام خواتین میں آگے بڑھنے کی تحریک پیدا کی ۔ ان کی اس تمام جدوجہد اور پروان چڑھنے کے تمام مراحل میں ان کے عظیم بھائی کی حوصلہ افزائی بھی شامل تھی۔
مادر ملت اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں اور قائد جب انگلستان سے تعلیم سے فراغت پاکر واپس تشریف لائے تو ہمہ وقت اپنی اس پیاری بہن کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت مصروف ہوگئے ۔ والدین کے انتقال کے بعد تو قائد نے ماں باپ دونوں کی محبت اپنی لاڈلی بہن پر نچھاور کردی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی یہاں تک کہ وہ داندان ساز بن کر بمبئی میں اپنا مطب کھول کر اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بھی کرنے لگیں ۔ اس سارے سفر کے دوران انہیں اپنے عظیم بھائی کی بہترین راہنمائی اور مدد میسر رہی ۔ قائداعظمؒ انہیں پیار اور اپنائیت سے’’ فاطی‘‘ کے نام پکارتے تھے اور دونوں بہن بھائی کا پیار ایک مثالی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ جب ان کی بھابھی رتی جناح کو انتقال ہوگیا تو مادر ملت نے اپنے من پسند شعبے کو خیرباد کہا اور اپنے آپ کو بھائی کی خدمت اور دلجوئی کے لیے وقف کر دیا جو اس وقت اپنی قوم کے لیے ایک علیحدہ وطن اور ایک پرسکون سائبان کے لیے سرگرم عمل تھے اور اس دور میں انہیں گھریلو معاملات سے ذہنی طورپر آسودگی فراہم کی کہ وہ پورے انہماک اور دلجمعی سے اپنی قوم کی امیدوں پر پورا اتر سکیں اور اس کی کشتی کو منجدھار سے نکال کے ساحل مراد تک پہنچا سکیں۔ تحریک پاکستان کے پرآشوب اور کٹھن مراحل میں بھی وہ اپنے بھائی کی خدمت کی اور انہیں اپنی بھرپور مدد اور اعانت فراہم کی۔
قائداعظم نے جب اپنی جدوجہد کا آغازکیا تو اس وقت انہوں نے قوم کے نوجوان مرد و خواتین کو اس میں شامل نہ کیا بلکہ انہیں سیاست سے دور رہ کر پوری لگن اور دلچسپی سے اپنی تعلیم کی طرف دھیان دینے کی ترغیب دی لیکن جب تحریک پاکستان اپنے فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی تو قائد نے قوم کے ہر فرد کو اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی پرزور دعوت دی۔ قائد کی اس تحریک پر مادر ملت بھی میدان عمل میں نکلیں اور پورے ہندوستان کے دورے کرکے نہ صرف خواتین بلکہ نوجوانوں کو بھی متحرک کیا کیونکہ آپ کو پختہ یقین تھا کہ کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیاب و کامران نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی خواتین بھی اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کرتیں۔ مادر ملت نے خواتین کی صلاحیتوں اور ان کی قابلیت کو بروئے کار لاکر انہیں ذہنی اور شعوری طورپر حصول وطن کی تحریک میں شامل کیا اور ان کی ہمت و حوصلے کو بڑھا کر تحریک پاکستان کے لیے کمک فراہم کی۔ آپ خواتین کے شاندار کردار اور بہترین مستقبل کے لیے بہت پرامید رہتی تھیں اور ان کو آگے بڑھ کر اپنے آپ کو منوانے کی امنگ کو مہمیز دیا کرتی تھیں۔ یہ مادر ملت کی دی ہوئی قوت اور طاقت تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں قائد کا پیغام گلی گلی اور قریے قریے پہنچ گیا اور عام لوگ اور خصوصاً خواتین قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دیوانہ وار اپنے گھروں سے نکلیں او علیحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔
مادر ملت کی خواہش اور تحریک پر نوجوانوں اور خواتین کی بہتر رہنمائی اور ان کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا قیام لایا گیا جس نے آگے چل کر علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور وہ پورے ہندوستان میں پھیل گئے اور عام لوگوں کو ا س عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے منظم کرکے قائد کو ایک موثر قوت فراہم کی ۔ قائد کی ولولہ انگیز قیادت اور بے لوث رہنمائی سے جب حصول پاکستان کا مرحلہ طے ہوگیا تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو اس نوزائیدہ مملکت کو درپیش تھا وہ لٹے پٹے مہاجرین کی آمد تھی جو خاک و خون کے سمندر عبور کر کے اپنے خوابوں کی سرزمین اس حال میں پہنچے تھے کہ جسم میں ابھی جان باقی تو تھی لیکن نہ کھانے کو کچھ تھا ، نہ ہی جسم پر ڈھنگ کا کوئی کپڑا تھا اور ہی کوئی رہن بسیرا۔ اس انتہائی آزمائش کے وقت قائد کی خواہش پر ویمن ریلیف کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور مادر ملت خود میدان ِ عمل میں اتریں اور اپنی بہترین بصیرت اور سوجھ بوجھ سے تمام خواتین کے ساتھ ملا کر مہاجرین کی آباد کاری اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے جیسے گھمبیر مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کیا۔ اس عمل میں مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے مرد و خواتین رضاکار پورے ملک میں پھیل گئے اور ان مشکل حالات میں ان کی ہدایات اور رہنمائی میں قوم کی بہترین خدمت کرکے مادر ملت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ مادر ملت پاکستان کی خواتین کو ہنرمند اور کارآمد شہری بنانے کی بھی آرزو مند تھیں اور آپ ہی کی تحریک پر بیگم رعنا لیاقت علی خان نے آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (APWA)کی داغ بیل ڈالی جس نے خواتین کو معاشی ، سیاسی اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا اور ان میں ملی و قومی شعور کی بیدار کرکے ملکی امور میں شمولیت کے لیے جذبہ اور امنگ پیدا کی۔ مادر ملت کی دی ہوئی روشنی اور حوصلہ مندی نے خواتین کے لیے آنے والے وقتوں میں ترقی و خوشحالی کی راہیں متعین کیں جس کے لیے پوری قوم اور خاص طور پہ خواتین ان کی ممنون ِ احسان ہیں اور پاکستانی خواتین ہمیشہ ان پر فخر کرتی رہیں گی۔
مادر ملت نے جہاں پوری پاکستانی قوم میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا کیا وہاں انہوں نے پاکستان کے استحکام اور سالمیت کے لیے اپنا کردار نہایت احسن طریقے سے ادا کیا۔ مادر ملت کی زندگی کے آخری دور میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اس وقت قیادت کا فقدان پیدا ہوا اور پوری قوم کی نظریں بالاتفاق ان کے اوپر ہی مرکوز ہوگئیں تو وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود تمام سیاسی رہنمائوں کے پرزور اصرار پر میدان ِ عمل میں نکلیں اور آمریت کے بت سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر دیا لیکن اس وقت کے آمروں نے مادر ملت کی حرمت و تقدس کا کوئی خیال نہ کیا اور انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے تضحیک کا بھی نشانہ بنایا۔ مادر ملت اس وقت صحیح معنوں میں وفاق کی علامت بن کر سامنے آئیں اور اس پرآشوب دور میں بھی قوم کو اتحاد و اتفاق کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ اس موقع پر قوم کی رہنمائی کرنے پر پوری قوم کی طرف سے انہیں’’ شمع جمہوریت‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
شاعر انقلاب جناب حبیب جالب نے بھی اس وقت مادر ملت کے ہم رکاب رہے اور اپنی انقلابی نظموں سے عوام کے جذبات کو گرماتے رہے:
ماں کے قدموں ہی میں جنت ہے ، ادھر آجائو!!!
ایک بے لوث محبت ہے ، ادھر آجائو!!!
وہ پھر آئی ہے ہمیں ملک دلانے کے لئے!!!
ان کی ہم پہ عنایت ہے، ادھر آجائو!!!
آج جبکہ ہم مادر ِ ملت کا131ویں یوم پیدائش پر انہیں خراج ِ تحسین پیش کر رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم ان کی روح سے معافی طلب کرے کیونکہ پاکستان آج جس قسم کے حالات سے دوچار ہے اس میں مادر ملت کی تحقیر و تنقیص کا گناہ بھی شامل ہے۔ اس وقت اگر مادر ملت کی لاج رکھ لی جاتی تو یقینا آج قائد کا پاکستان بھی اپنی اصلی حالت میں سلامت ہوتا اور اس کا مشرقی بازو بھی اسی طرح پوری آن بان شان کے ساتھ اس کے ساتھ موجود ہوتا۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہی ہے کہ اس کے بعد پاکستانی قوم ایک قوم نہ رہی اس کو حکمرانوں کی جاہ طلبی اور ہوس اقتدار پاکستان کو لے ڈوبی اور اس کو افراتفری کے سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ آج مادر ملت کے افکار و نظریات سے رہنمائی حاصل کرکے یہ قوم دوبارہ اپنے عروج کی منزل حاصل کر سکتی ہے اور صحیح طور پہ پاکستان ترقی و خوشحالی کہ نئی روشن اور تابناک راہوں پر گامزن کرکے پوری دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام اور نیک نامی حاصل کر سکتی ہے۔ مادر ملت کے انتقال پر شاعر انقلاب جناب حبیب جالب کا قطعہ:
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے!!!
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے!!!
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں ، مگر کتنے ہیں!!!
ظلم کے آگے کبھی نہ سر جھکانے والے!!!
مرکے بھی مرتے ہیں کب مادرملت کی طرح!!!
شمع تاریک فضائوں میں جلانے والے!!!







