انقلاب ممکن مگر؟

غلام العارفین راجہ
اکثر بیشتر ہمیں انقلاب کا لفظ سننے کو ملتا ہے۔ یہ لفظ زندگی میں پہلی بار سیاست میں ڈاکٹر طاہر القادری سے سنا تھا۔ اُس وقت محض ایک سیاسی لغت معلوم ہوتی تھی لیکن وقت گزرتا گیا بچپن سے نکل کر جب لڑکپن میں آئے تو دنیا میں مختلف انقلابات جو ہر دور میں آتے رہے ہیں ان سے کچھ آشنائی ہوئی تو پتہ چلا انقلاب جہد مسلسل کا نام ہے۔ کسی خاص نظریے یا سوچ کو ایسے معاشرے یا قوم میں پروان چڑھانا جہاں اُس سے لوگ نا آشنا ہوں اور پورے نظام کو کسی خاص سمت میں تبدیل کر دینا انقلاب ہے۔ آپ انقلاب میں لوگوں کی انفرادی و اجتماعی دونوں زندگیوں کو نشانے پر لے سکتے ہیں۔
خیر پاکستان میں جیسا کہ پہلے بھی ایک شخصیت کا ذکر کیا اسی طرح مختلف ادوار میں انقلاب کی باتیں ہوتی رہیں ہیں۔ مگر انقلاب نہ آ سکا۔ آج بھی ہم کسی مسیحا کے انتظار میں انقلاب کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ کوئی آئے گا اور ہمیں اس صورتحال سے باہر نکالے گا. کیونکہ ہم کاہل و سست ہو چکے ہیں ہمیں اپنے سے زیادہ دوسروں پر بھروسہ ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے بھی انقلاب کا نعرہ لگایا وہ اپنے ڈومین میں ہی رہ گیا یا قوم کے اس چال چلن کی وجہ سی خاموشی کو بہتر جان کر چپ کر گیا۔
پاکستان میں انقلاب کبھی بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں لے سکتی کیونکہ سیاسی جماعت کو بیک وقت کئی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اگر کوئی مذہبی جماعت اس نعرے کو لے کر چلتی ہے تو مسلکی عقائد اُس کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں گے جس کی وجہ سے وہ مذہبی سیاست کے قائل افراد کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔ جبکہ سیکولر یا جن کو ہم عوامی جماعتیں کہتے ہیں ان کی قیادت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ اپنے جماعت کے اندرونی فیصلے خود کر سکیں۔ یہ ہر وقت بیرونی مداخلت کی خواہش مند رہتی ہیں البتہ عوام میں خوب خود مختاری کا نعرہ لگاتی ہیں۔
جب تک عوام خود چھوٹے چھوٹے اختلافات سے نکل کر ایک نہیں ہو گے یہاں انقلاب صدیوں تک مشکل ہے۔ آج عوام کی حالت یہ ہے کہ اپنے لیڈر، جماعت، مسلک، کمیونٹی کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے چلیں باہر نہ نکلے مگر انفرادی طور پر بہتری کا بھی نہیں سوچ رہی۔ جس سے ہم پر قابض طبقات خوب مزے لوٹ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ایک آواز ہو کر عوام کسی لیڈر یا جماعت کے بغیر کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ کسی لیڈر یا جماعت پر کئی تلواریں لٹک رہی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہر وقت سمجھوتہ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔







