بغیر پاسپورٹ غیرملکیوں کی آمد رک سکے گی؟

امتیاز عاصی
پاکستان کی معیشت کی خرابی میں جہاں غیر ضروری حکومتی اخراجات کا عمل دخل ہے وہاں کئی عشروں سے قیام پذیر افغان پناہ گزینوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغان مہاجرین کیمپوں میں رہتے تو عالمی ادارے بڑھ چڑھ کر ان کی مد د کرتے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں رہنے کی اجازت دینے سے وہ عام شہریوں کی طرح رہ کر کاروبار کر رہے ہیں تو عالمی ادارے ان کی مالی اعانت کیوں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے حکومت پاکستان کے پاس قانونی اور غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کے پورے اعدد و شمار نہیں ہیں ۔ اصولی طور پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد تمام مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جانا چاہیے تھا البتہ ان کا پاکستان میں قیام صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب افغانستان میں انہیں جان کا خطرہ ہو۔ عجیب تماشا ہے پاکستان میں قیام پذیر افغان آزادانہ طور پر اپنے ملک آتے جاتے ہیں تو ان کی جان کو خطرات لاحق نہیں ہوتے جب انہیں واپس بھیجا جانا مقصود ہو تو ان کی جان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ وزرات خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا ہے کسی غیر ملکی کو بغیر دستیاویز پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سوال ہے اس سے قبل حکومت پاکستان نے افغان شہریوں کو بغیر دستاویز آنے جانے کی کھلی چھٹی کیوں دی۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں دینا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر کسی کو آزادانہ طور پر داخلے کی اجازت ہے۔1979ء میں روسی جارحیت کے نتیجہ میں لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کے علاوہ ایران اور دوسرے ملکوں میں ہجرت کی۔ یہ سیاسی حکومتوں کا کیا دھرا ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے افغان پناہ گزینوں کو آزادانہ طور پر یہاں آمد کی اجازت دی گئی۔ چلیں وہ آبھی گئے تھے تو انہیں مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا انہیں کیمپوں سے باہر آنے کی اجازت کیوں دی گئی جس کا جواب کسی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد بشمول امریکہ عالمی اداروں نے پاکستان کی مالی مدد بھی کی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا انہیں ملک میں کھلی چھٹی دے دی جاتی۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض بے ضمیر اور کرپٹ ملازمین کی اعانت سے لاکھوں مہاجرین نے پاکستان کے شناختی کارڈ بنوا لئے جس سے ان کا قیام نہ صرف قانونی طور پر ہوگیا بلکہ وہ بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے۔ تعجب ہے ایک طرف طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی پشت پر کھڑی ہے جو ہماری ہاں آئے روز دہشت گردی کر رہی ہے لیکن پاکستان کی حکومت بجائے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے ان کے قیام میں توسیع دیئے جا رہی ہے۔ پاکستان کے کسی شہر میں دیکھ لیں افغانستان سے آئے ہوئے لوگ عام شہریوں کی طرح رہ رہے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے افغانوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس نہ تو اقوام متحدہ کے کارڈ ہیں نہ ان کے پاس کوئی دستاویز ہے اس کے باوجود وہ ہمارے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اب تو افغان شہریوں کی شناخت مشکل ہو گئی ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو افغان شہری تسلیم نہیں کرتے اور اپنا تعلق کے پی کے سے جوڑتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے بین الاقوامی قانون کے مطابق افغانستان کے ساتھ سمندر نہ ہونے سے وہ ہماری labilityہے تاہم اس مطلب یہ نہیں انہیں شہروں میں کھلا چھوڑ دیا جاتا۔ کئی عشرے گزرنے کے بعد افغانوں کی شناخت مشکل ہو گئی ہے ان کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں جن کا رہن سہن ہماری طرح ہو گیا ہے وہ کیسے واپس جا سکیں گے؟ پاکستان کی حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے ٹی ٹی پی آئے روز دہشت گردی کر رہی ہے اور ہماری حکومت ایک احتجاجی مراسلہ افغانستان کے ناظم الامور کو تھما دیتی ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کوئی افغان باشندہ سرحد پار کرتا اس کے پاس پاسپورٹ کا کوئی دستاویز نہ ہونے کی صورت میں اسے واپس بھیج دیا جاتا۔ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود وہ لوگ باڑ اکھاڑ پر ہمارے ملک میں داخل ہو جاتے ہیں۔ سوال ہے وہ اس طرح آزادانہ طور پر ایران یا کسی اور ملک میں کیوں نہیں جاتے؟ دراصل انہیں اس بات کا علم ہے پاکستان جانے کے بعد انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چند ماہ قبل غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا شوشہ چھوڑا گیا صرف چند لاکھ افغان واپس بھیجے گئے طالبان حکومت نے تھوڑا سا دبائو ڈالا تو ہماری حکومت کی خاموشی اختیار کر لی۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں اب بھی کئی لاکھ افغان باشندے مملکت میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں غیر قانونی افغانوں کے قیام کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے سرحد پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کی مبینہ ملی بھگت کے بغیر کوئی غیر ملکی پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا لہذا
غیرقانونی افغان شہریوں کی پاکستان میں داخلے کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو پاک افغان سرحد پر تعینات ہیں۔ جیسا کہ اب اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنے کے بعد افغانستان سے جو رد عمل آرہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی کاروبار کے خلاف پاکستان کے اقدامات ہیں ورنہ اگر انہیں پاکستان میں آزادانہ طور پر داخلے ، اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی اشیاء کے کاروبار کی کھلی اجازت دے دی جائے تو دہشت گردی میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بعض کرپٹ اہل کاروں کی مبینہ ملی بھگت سے اسمگلنگ اور غیرقانونی افغان شہریوں کی آمدورفت ابھی جاری ہے جس روز یہ سلسلہ بند ہوا ہمارے ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ حکومت نے خیبرپختونخوامیں آپریشن کا فیصلہ کیا تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے طور پر پولیس کی مدد سے یہ کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چلیں کچھ تو ہو اگر وہ دہشت گردی کے خلاف پولیس کو استعمال کرکے کامیاب ہو سکتے ہیں تو کوئی برائی نہیں ہے۔ بہرکیف حکومت کو افغانستان سے غیر قانونی طور پر آنے والوں کی آمد آگے بند باندھنا ہوگا ورنہ عشروں سے جاری رہنے والا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا ۔





