اذیت ناک مہنگائی

تحریر : فیصل رمضان اعوان
لگتا ہے ہم پاکستانی عوام نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ کچھ ہم نے خود کوشش کی اور باقی رہی سہی کسر پوری کرکے ہمیں وہاں تک پہنچا دیا گیا۔ جہاں صرف رونا پیٹنا ہی باقی بچا ہے وطن عزیز پاکستان میں اس سے پہلے بھی غریب مشکل سے زندگی گزار رہا تھا اب تو ارباب اختیار نے شاید یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ کیوں نا بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کو بھوک دے کر مارا جائے۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ لفظ بھوک کا استعمال کیا ہے وگرنہ ان کی کیا اوقات ہے بے شک رزق دینے اللہ ہے لیکن اللہ نی یہ دنیا بناکر اسباب پیدا کر دئیے روٹی کھانے کے لئے ہمیں محنت کرنا ہوگی تب روٹی کا حصول ممکن ہوگا۔ بیٹھے بٹھائے کھانا نہیں ملے گا حرکت میں برکت ہے لیکن ہائے ظالموں نے غریب کو کہاں لاکھڑا کر دیا ہے۔ میں تو کہتا ہوں ان بدبختوں کو اقتدار کی کرسی چھوڑ کر جنگل کی راہ لینی چاہئے مجذوب بن جانا چاہئے اور اس رب کائنات سے توبہ کرنی چاہئے گڑگڑا کر معافی مانگی جائے کہ یا اللہ تو نے ہی یہ منصب عطا کیا لیکن نجانے ہمیں کیا ہوگیا ہم طاقت کے نشے میں سب بھول گئے اور تیری مخلوق کے دکھوں میں ایسا اضافہ کر دیا کہ لوگ مرنے کو آگئے ہیں نفسیاتی مریض بن گئے ہیں جنگل میں نہیں جاسکتے تو خدارا اپنے لئے موت ہی مانگ لیں اٹھ جائیں اس دنیا سے اس دھرتی پر بوجھ نہ بنیں آج غریب کیسے جی رہا ہے اپنی رنگین دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں کیا حشر کر دیا ہے تمہارے ہوس اقتدار نے۔۔۔ یہ معاشی بدحالی کیا رنگ دکھلائے گی لاوا پک چکاہے زیادہ دیر نہیں لگے گی یہ لاوا پھٹنے کو ہے اور سب سے پہلے تمہارے ہی محل نیست و نابود ہونگے۔
عام آدمی کو جب جینے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تو وہ کیا خاک جئیے گا آج ہر غریب شخص پریشانی کے عالم میں پوچھتا ہے کہ ہمارے ملک کا کیا ہوگا آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بجلی کی آئے روز بڑھتی قیمتیں شیطان کی آنت بن گئی ہیں بیس پچیس ہزار کمانے والا ایک غریب آدمی پچیس تیس ہزار بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا کیا جینے کے لئے صرف بجلی کا بل ہی ادا کرنا ہے دیگر ضروریات زندگی کہاں سے اور کیسے پوری کی جائیں گی عام آدمی بچوں کو کھانا کہاں سے کھلائے گا ان کی تعلیم کا کیا ہوگا وہ کیسے تعلیم حاصل کر سکیں گے عام آدمی کے لئے یہ سب بہت مشکل ہوچکا ہے یہ کوئی افسانہ نہیں ہے یہ وہ حقیقتیں ہیں جن سے آپ اہل اقتدار نظریں چرا رہے ہیں لیکن حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے لگتا ہے اقتدار کی بدمست کرسی اور ناجائز دولت کے ڈھیر نے اہل اقتدار کو اندھا کر دیا ہے کہیں ایسا تو نہیں سوچا جارہاہے کہ غریبوں کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے خدا کے لئے بس کر دیں یہ سب ۔۔ اتنی دولت اکٹھی کرکے کہاں لے جائیں گے قبر کے گڑھے میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے جینے دیں اس لاچار قوم کو اپنے ماضی کی تاریخ کو دیکھ لیں بڑے بڑے طاقتور کیسے عبرت کا نشان بن گئے تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی تاریخ کے کرداروں میں فرعون نہ بنیں کچھ خدا کا خوف کریں اور اس بے بس غریب عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں بھوک کو اس حد تک نہ پھیلائیں کیونکہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بھوک تباہی کا بدترین ہتھیار ہے ۔
سماجی انصاف کا پہلا اور ضروری جز بھوک کو ختم کرنا ہوتا ہے بھوک کے سامنے تو ہر چیز کانپتی ہے حتی کہ موت بھی۔ تمام دکھ تمام اذیتیں بھوک سے جنم لیتی ہیں الحمدللہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن بدقسمتی دیکھیں ہر طرف بھوک کا راج قائم ہورہا ہے۔
خدارا اپنی غریب عوام کو اس اذیت ناک مہنگائی اور بجلی کے ناجائز بلوں سے نجات دلوائیں اور وطن عزیز کو محفوظ بنائیں۔





