جہاز ڈوبنے سے پہلے چیخیں

تحریر : سیدہ عنبرین
ہر مرد وزن ایک ہیجانی کیفیت سے دو چار ہے، ہیجان بڑھ جائے تو انتشار کی حدود میں داخل ہو جاتاہے، معاشرے میں انتشار کی بڑی وجہ ذہنی نا آسودگی ہے، جس کا بڑا سبب میں لوٹ مار کلچر ہے۔ یہ لوٹ مار پرائیوٹ سطح پر تو تھی ہی اب سرکاری سطح پر شروع ہو چکی ہے، کئی ماہ قبل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر داخلہ نے یہ بتا کر قوم کو حیران کر دیا کیا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے کس طرح عام آدمی کو لوٹا، انہوں نے انکوائری کا حکم دیا اور بتایا کہ لوٹ مار کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائیگی، وہ یقیناً اس معاملے میں سنجیدہ تھے لیکن یہ سب انہوں نے بطور فرد واحد نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے کرنا تھا۔ ریلیف دینے کی بجائے آئی ایم ایف کو ریلیف دینے کا فیصلہ ہوا، بجٹ کے بعد ایک سے زائد مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ ہوشربا بجلی کے بل گھر کے کرایے سے زیادہ ہیں اور کرائے کے ساتھ بل کی رقم ملائی جائے تو عام آدمی کی ماہانہ آمدن سے بہت زیادہ ہے۔ بھاری او ر ناجائز بل بھیجے جانے والوں کے خلاف کب اور کیا کارروائی ہوگی قوم کا ہر فرد منتظر ہے۔ بجلی کا بل ادا نہ کرنے کی سکت نہ رکھنے والے بیوی بچوں سمیت خود کشیوں پر مجبور ہو گئے، گزشتہ ہفتے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا، کیونکہ وہ اپنے حصے کا بجلی کا بل ادا کرنے سے قاصر تھا۔ سب کچھ ہوتا رہا حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ایک سابق نگران وزیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں وہ اعداد و شمار پیش کیے جس پر حکومت کے درو دیوار ہل گئے۔ جناب گوہر اعجاز نے بغیر لگی پٹی وہ کہانی کھول دی جو معلوم تو سب کو تھی لیکن کوئی ذمہ دار شخصیت اس پر کان دھرنے کو تیار نہ تھی۔
سرکاری بلی کے پائوں جلنے شروع ہوئے تو اس نے ایک وزیر کی ڈیوٹی لگائی کہ اسکا دفاع کرنے نیلے ٹی وی پر ایک پیلے اینکر نے وزیر جناب اویس لغاری کا انٹرویو کیا، وزیر موصوف نے اسی انداز میں حکومت کی صفائی پیش کرنا چاہی جس طرح ہر وزیر کیا کرتا ہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے ہوگا، کریںگے کا راگ الاپا، انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں پرائیوٹائز ہو جائینگی، پوچھا گیا کب ہونگی، جواب ملا ایک برس کے اندر اندر، پوچھا گیا یہی کچھ تو پی ڈی ایم حکومت میں کہا گیا تھا پھر کیوں نہ ہو سکا۔ جواب ملا ہمارے پاس مینڈیٹ نہیں تھا۔ حالانکہ پی ڈی ایم حکومت کو وہ مینڈیٹ دے کر بٹھایا گیا تھا جو اس سے قبل شاید منتخب حکومتوں کے پاس بھی نہ تھا۔ کئی سو ارب کے قرضے لیے گئے۔24ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے، رونا پھر وہی رہا کہ مزید ٹیکس لگائے بغیر معیشت سدھر نہیں سکتی۔ سرکاری اللے تللے ختم کرنے کی طرف دھیان نہ دیا گیا۔ اسی ٹی وی چینل پر اسی اینکر نے اپنے گزشتہ ہفتے کے پروگرام میں جناب گوہر اعجاز کو مدعو کیا جنہوں نے آئی پی پیز کا کچا چٹھا کھول کر پیش کیا جس کے مطابق بعض ایسے پاور پروڈیوسرز کو ایک ارب روپے ادا کیے گئے لیکن اس نے بجلی کا ایک یونٹ پیدا نہ کیا، انہوں نے درجنوں پاور پروڈیوسرز کی تفصیلات ذمہ داری سے بیان کیں، جس کے بعد آج قوم سراپا احتجاج ہے۔
جماعت اسلامی نے اس حوالے سے درست وقت کا انتخاب کیا ہے، انہوں نے موسمی مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر کامیاب دھرنا دیا ہے اور اعلان کیا ہے، جب تک بجلی کے بلوں سے ناجائز سرچارج ختم نہیں ہوتے، اس کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر نے عوام کا مقدمہ درست انداز میں پیش کیا ہے اسے پذیرائی ملی رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے انڈر ٹونٹی فائیو طرز کی ایک ٹیم مذاکرات کیلئے بھجوائی گئی ہے، جس کا فوری اور اہم ٹاسک کسی نہ کسی طرح حل دے کر دھرنا ختم کرانا ہے۔ ایڈہاک ازم پر حکومت چل رہی ہے، دیرپا فیصلوں کا فقدان ہے، حکومت گزشتہ دو برس سے کہہ رہی ہے کہ ان پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدے کی گارنٹی حکومت پاکستان نے دی ہے۔ لہذا ان کا پاس کرنا پڑے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی وطن فروش آئے اور ملک کا سودا کر جائے توکیا حکومت اس معاہدے کا احترام کرے گی۔ یقیناً نہیں تو پھر ان معاہدوں پر نظر ثانی کیوں نہیں ہو سکتی۔ ذرائع کے مطابق باون بجلی پیدا کرنے والے ادارے حکومت کی اپنی ملکیت ہیں۔ وہاں بھی کیپسٹی پے منٹ کی جارہی ہیں۔ تو یہ پیسہ کس کی جیب میں جارہاہے۔ جن پراجیکٹس میں پرائیوٹ سیکٹر مالک ہے ان کے مالک کو میز پر کیوں نہیں بٹھایا جا سکتا اور ملک کش اور عوام کش شرائط ختم کیوں نہیں کی جا سکتیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ نیلے ٹی وی کے پیلے اینکر نے اپنے پرانی دھونے دھوتے ہوئے بتایا کون سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے کا مالک کون ہے اور ملک کو کتنا لوٹ چکا ہے۔
ہمالیہ سے اونچے، سمندروں سے گہرے اور شہر سے بیٹھے لوگوں سے پوچھا جائے جناب اس پردے میں آپ نے ہم سے کیا کیا تو شاید جواب ملے کہ ہم تو آپ کو کوئلے سے چلنے والے پلانٹ مفت میں دے رہے تھے، آپ نے خود ہی اصرار کیا کہ نہیں ہم مفت میں لینے کی بجائے انہیں خریدیں گے۔ یاد رہے کوئلے سے چلنے والے پلانٹ اس وقت لائے گئے جب دنیا انہیں ترک کر چکی تھی، ان پلانٹس کی وجہ جو آلودگی پھیلی وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
ملک میں بجلی کی ضرورت سے پانچ گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن پھر بھی ملک کے مختلف حصوں میں آٹھ گھنٹے سے لیکر بارہ گھٹنے کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، دوسری طرف پرائیوٹ بجلی گھروں کو بغیر بجلی بنائے ان سے خریدے، اربوں ڈالر کی ادائیگیاں کی جاچکی ہے۔ ان سے استعداد کے مطابق بجلی بنوا کر لوڈشیڈنگ ختم کیوں نہیں کی جا سکی۔ عوام کا لہو نچوڑ کر انہیں ادائیگیوں کا مطلب کیا ہے۔ یہ حساب دینے کی بات عرصہ دراز سے کی جارہی ہے لیکن کوئی حساب دینے کیلئے تیار نہیں۔ شاید اب حساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ ’’ فچ‘‘ کے مطابق اگر حکومت اٹھارہ ماہ یا اس سے قبل اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے تو اس کی بڑی وجہ بجلی کے سلسلے میں یہی لوٹ مار ہو گی، جس نے ملک کو ڈیفالٹ تک پہنچایا، ہم ابھی اس سے بچے نہیں۔ جہاز ڈوبنے سے قبل ڈوبنے والوں کی چیخیں بلند ہورہی ہیں۔





