پاکستان کی بقا جمہوری نظام میں ہے

تحریر : آصف علی درانی
جمہوری نظام جب بہتر طریقے سے کام کرتا ہے تو وہ ایک بہترین معاشرتی و سماجی نظام فراہم کرتا ہے، جس میں شہریوں کو حقوق اور اطمینان کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس کی اہم خصوصیات میں عدلیہ کی آزادی، حکمرانوں کی شفافیت، شہریوں کی شمولیت، اختیارات کی مناسب تقسیم، آزادی، حقوق کی حفاظت، تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتیں، اقتصادی ترقی کے لیے مناسب پالیسی اور اقتدار کا درست استعمال شامل ہیں۔ ان تمام اطراف کی مجموعی اثرات کی وجہ سے اچھی جمہوریت معاشرتی ترقی، عدلیہ کی بہتری، اور عوام کی زندگی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جمہوریت ایک ایسا حکومتی نظام ہے جس میں عوام اپنے نمائندوں کو ووٹ دے کر حکومت کو بناتے ہیں، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی، جس میں عوام ووٹ کی اہمیت سے حکمران منتخب کرتے ہیں۔ جمہوریت میں حکومتی فیصلے، قوانین اور پالیسی عوام کے مفادات کے مطابق بنائے جاتے ہیں، عوام کو حکومتی فیصلوں کے بارے میں بات کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔
کمزور جمہوریت پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے، جس نے ملک پاکستان کی سیاسی، مالیاتی اور اجتماعی ترقی کو متاثر کیا ہوا ہے۔ جمہوری نظام میں عوام کی حصہ داری، قانون کی حکمرانی اور حکومتی اداروں کی حیثیت بہت اہم ہوتی ہے، لیکن آج کل پاکستان میں یہ سب بہت کمزور ہے۔
ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی تنائو اور فساد نے جمہوری نظام کو کمزور کیا ہے۔ سیاست میں اختلافات، انتخابات میں دھاندلی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان متنازعہ معاملات جمہوریت کی بنیادوں کو تباہ کرتے ہیں۔ عوام کو اپنے حقوق کے لیے سیاسی فعالیت میں شمولیت نہ کرنے دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت کے نظام کی مدد کی بجائے اسے مزید کمزور بنایا جا رہا ہے۔ آئینی اداروں کی کمزوری نے جمہوریت کو متاثر کیا ہے، پاکستان میں قانون سازی اور عدالتی نظام میں تنائو، قانون کی پاسداری میں دیر اور قانونی عدالتوں میں انتظار کی مشکلات نے عوام کو احساس دلایا ہے کہ جمہوری نظام ان کے لیے حقیقی انصاف کا ذریعہ نہیں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ فوجی حکمرانی کا طوفانی اثر بھی جمہوری نظام کی مضبوطی کو متاثر کرتا ہے۔
پاکستانی عوام کے سیاسی شعور میں بہت زیادہ کمی ہے، جو کمزور جمہوری نظام کے مضبوط ہونے کے لیے نقصان دہ ہے۔ عوام کی شمولیت کی کمی نے سیاسی اداروں کو منتخب کرنے میں بھی اکتسابی تقویت دی، جو کہ جمہوریت کی کمزوری کا بڑا سبب ہے۔
اگر میں پاکستانی جمہوریت کے بارے میں مضبوط الفاظ میں بات کروں یا اس پر تبصرہ کروں، تو میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا، کیونکہ کبھی کبھار باتیں مضبوط الفاظ میں کہنا یا لکھنا، پڑھنے والوں کو محسوس کراتا ہے کہ شخص مسئلے کو حل کرنے یا کوشش کرنے کیلئے متحرک ہے۔ ہر کام مشکل نہیں ہوتا، بلکہ ہم خود اسے مشکل بناتے ہیں۔
میں پاکستانی جمہوریت کی بات کر رہا ہوں۔ آج کل اگر کسی سے پوچھو کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہے؟ وہ ایک عجیب کشمکش میں پڑ جاتا ہے اور مدھم سی آواز میں کہتا ہے، ہاں، جمہوریت ہے۔ مگر اگر کسی دوسرے سے یہ سوال پوچھوں تو وہ کہتا ہے، نہیں، نہیں ہے۔ اب مجھے ان دونوں جوابات کے درمیان الجھن ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہے یا نہیں۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ اگر ( ہاں اور نہیں) کو ملا لیا جائے، تو شاید کچھ معنی نکلے گا ’’ اُٹھو مت بیٹھو‘‘
انتخابات اور اس کے بعد عوام سیاست پر باتیں کرتے ہیں۔ کیونکہ میڈیا پر ہر وقت سیاست سیاست کا کھیل نشر ہوتا ہے، اس کے علاوہ عوام جمہوریت کے حوالے سے باتیں کر رہے ہیں لیکن ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ ہر جگہ کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے، ہر جگہ کا اپنا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے، ہر جگہ کے لوگوں کی اپنی آب و ہوا ہوتی ہے اور اُس آب و ہوا میں ہر طرح کی جو چیزیں ہیں، وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اِسی طرح سے اگر جمہوریت کے حوالے سے ہم اپنے ان علاقوں کا ذکر کریں ہم ترقی پذیر ممالک کا ذکر کریں۔ تو میں یہی کہوں گا کہ ان علاقوں میں جمہوریت کامیابی کی علامت نہیں ہے، جمہوریت کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ میں یہی کہوں گا کہ ہمارے جیسے ملکوں کے اندر جمہوریت ایک ایسی بلا ہے، ایک ایسی بدصورت خاتون ہے، جس کو میک اپ لگا کے ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے اور وہ اتنی حسین بنا دی گئی ہے کہ آج ہم میں سے ہر کوئی اِسی خوبصورت خاتون کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ لیکن جمہوریت کا اصل چہرہ جس طرح میں نے بتایا کہ انتہائی بدصورت ہے، کیسی جمہوریت کہ جس میں میرے اور آپ کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں، کیسی جمہوریت جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
کیسی جمہوریت جہاں پر کوئی سانحہ ہوتا ہے تو کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا، کیسی جمہوریت کہ ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کرتے، کیسی جمہوریت کہ غریب چوری کرتا ہے تو سزا دی جاتی ہے اور امیر جب چوری کرتا ہے تو اس کی سزا کو ختم کر دیا جاتا ہے، کیسی جمہوریت جہاں مظلوم انصاف خرید رہا ہے، کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں آپ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا نہیں سکتے، کیسی جمہوریت جہاں آپ سچ نہیں بول سکتے، کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں آپ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتے، کیسی جمہوریت جہاں میں ظلم برداشت کر رہا ہوں۔ مجھے نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جو میری عزت کو خراب کرے، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جو خواتین کو عزت بیچنے پر مجبور کرے، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جو دنیا میں محتاج کر دے، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں میں اپنے حق کے لیے رشوت دوں، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں میں اپنے ہی حق کے لیے لڑتا رہوں، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں میں ایک عام انسان ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جو ایک نیک آدمی کو ظالم بنا دیں، ایک قاتل بنا دے، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں معاشرے میں بد امنی ہو، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں پر تعلیم کی سہولت میسر نہ ہو، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں صحت کی سہولت موجود نہ ہو، نہیں چاہیے ایسی جمہوریت جہاں بنیادی حقوق غصب کیے جائیں، ایسی جمہوریت کا میں نے کیا کرنا ہے، خدارا بس کر دیجئے۔ جمہوریت جمہوریت بہت ہو گیا، جمہوریت کے علاوہ اگر کوئی اور نظام ہو تو وہ لے کر آئیں۔ ہم سب کا ضمیر سویا ہوا ہے، لیکن اگر چند لوگوں کا ضمیر جاگ رہا ہے تو ہم ان کو ٹکنے نہیں دیتے، ان کے لیے گَڑے کھودتے ہیں اور ان کو کسی بھی طرح سے اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، تو جمہوریت باہر ممالک میں ہو سکتی ہے لیکن ہمارے علاقوں کے اندر نہ تو پہلے جو جمہوریت تھی اور نہ ہے اور نہ آئندہ ہو گی بلکہ جمہوریت کا لولی پاپ دے کر آپ کا منہ بند کر دیا جائے گا۔
میں اپنے کالم کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ ان علاقوں یا جگہوں میں جمہوریت کامیابی کی نشانی نہیں اور نہ ہی یہ خوشحالی کی ضمانت دیتی ہے۔ جو ہم دیکھتے ہیں وہ ایک مسخ شدہ شکل ہے۔ ایسی جمہوریت میں بنیادی انسانی حقوق محدود، امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جاتا ہے، زیادہ حالات یا صورتوں میں انصاف امیر کے لیے ہوتا ہے، یہ وہ جمہوریت نہیں ہے جس کا میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا تھا، اور نہ ہی وہ جمہوریت جو میں چاہتا ہوں۔ ایسی جمہوریت جو خواتین کے احترام کو نظرانداز، غریب اور بے سہاروں کو بے گھر کر دے، میں پسند نہیں کرتا۔ جمہوریت کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ہونا چاہئے۔





