تقاضے

محمڈ مبشر انوا ر(ریاض)
پاکستانی سیاستدانوں اور مقتدرہ کے تضادات کو دیکھتا ہوں تو حیرت سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اقوام عالم میں ہماری شناخت ہیں بلکہ ریاست پاکستان کے مفادات کا تحفظ بھی انہی کے کندھوں پر ہے،اور جس طرح ان مفادات کا تحفظ یہ لوگ کر رہے ہیں، اس پر کیا کہا جائے کہ فی الفور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام فریقین کی جبینوں کو دیکھیں تو ان کے سجدوں کا رخ زمینی خدا کے اشارہ ابرو پر ہوتا دکھائی دیتا ہے جبکہ عوام میں یہ فریقین ببانگ دہل اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ’’ ایبسولیو ٹلی ناٹ/قطعا نہیں‘‘ یا کسی سے ڈکٹیشن نہ لینے کی بات ہو یا قطعا نہیں کے جواب میں کسی ایک فریق پر زندگی تنگ کرنا ہو،یہ تام اشارے زمینی خدا کا حکم بجا لانے کے لئے ہی تو ہورہے ہیں۔ جیسے ہی ہوائوں کا رخ بدلنے کا موسم ہوتا ہے ،یہاں بھی معاملات بتدریج بدلتے دکھائی دیتے ہیں اور معتوب فریق ،جو بنیادی طور پر بلاوجہ مقدمات کی چکی میں پس رہا ہو اسے انصاف فراہم ہونا شروع ہو جاتا ہے، کو لابنگ سے جوڑا جانے لگتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فریق اپنے تئیں، اپنے آقا کی خوشنودی و رضامندی کے لئے ہر ممکن کوشش ضرور کرتا ہے، اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، یہ الگ معاملہ ہے تاہم موجودہ حالات میں عمران خان نے اس کا ریکارڈ واضح برتری کے ساتھ توڑ دیا ہے کہ امریکی کانگرس میں پیش ہونے والی قرارداد پر 368ارکان کی حمایت نے اسے دیگر ہمعصروں سے کہیں بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ گو کہ اس قرارداد کا تعلق اس کے بنیادی حقوق اور انصاف کی فراہمی سے ہے لیکن اس کے حریف اسے ’’ قطعا نہیں‘‘ یاد کراتے ہوئے بھول رہے ہیں کہ امریکی کانگرس نے اسے آزاد کرنے کے لئے نہیں کہا بلکہ اس پر قائم مقدمات پر انصاف کی فراہمی کے لئے کہا ہے،اس کے خلاف جعلی مقدمات اور اس کی جماعت کے زیر عتاب ہونے پر قرارداد منظور کی ہے۔ اسی تسلسل میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ ریاست پاکستان نے حالیہ انتخابات میں جس طرح جمہوری اقدار اور قوانین کو روندتے ہوئے، پہلے تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھینا،جس طرح اس کے امیدواران سے سیاسی وابستگی جبرا چھینی، مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کا حق چھینا اور جس طرح اب سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا سوچا جا رہا ہے، وہ کسی طور بھی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا اور پاکستان میں متعین امریکی سفیر کو اڈیالہ میں اسیر عمران خان سے ملنے کے لئے کہا ہے،یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔
دوسری طرف مقامی سطح پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک پریس کانفرنس کا چرچا ہے ،جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں نہ دینے سے ایسے واقعات میں کمی نہیں آئے گی۔یہاں ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا ملزمان کو صفائی کا موقع دیا جائیگا یا جس کو سرکار نامزد کر دے،وہ قابل گردن زنی ہو گا؟کیا ملزمان کو مجرمان ثابت کرنے کے لئے غیر جانبدارانہ و صاف و شفاف تحقیقات کی جائیں گی؟ جس طرح کسی قتل کے مقدمہ میں تحقیقات کرتے ہوئے، ملزمان کو بلا شک و شبہ قاتل ثابت کرنے کے بعد سزائے موت دی جاتی ہے، بعینہ نو مئی کے واقعات میں یہ طریقہ کار اپنایا جائے گا؟جس طرح کسی بھی مقدمہ قتل میں حالات و واقعات، پس منظر و پیش منظر اور نیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے، کیا اس وقوعہ میں یہ تمام امور مد نظر رکھیں جائیں گے؟ اس حوالے سے اس وقت میڈیا میں عمران خان کے اعتراف کا ذکر بڑی شدو مد سے کیا جارہا ہے کہ عمران خان نے جیل میں جی ایچ کیو کے علاوہ کئی دیگر حساس جگہوں پر ’’ احتجاج‘‘ کے لئے اپنے کارکنان کو کہا تھالہذا اس اعتراف پر عمران خان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس کے جواب میں عمران خان نے تفصیلا ’’ ایکس‘‘ پر وضاحت کر دی ہے البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کی کال دینا مناسب تھا ،خواہ مقصد پر امن احتجاج ہی ہوتا؟کیونکہ عمران خان نے اپنے ایکس پیغام میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ ان کی جماعت نے اپنے تیس برسوں کی سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے پر امن جدوجہد کی ہے،کے باوجود جی ایچ کیو یا دیگر حساس جگہوں پر ایسا احتجاج کرنا چاہئے؟ گو کہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے غیر سیاسی قوتوں کے کردارکو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور یہ پاکستانی سیاست کی تلخ حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود ماضی میں کسی سیاسی جماعت نے ایسا احتجاج ان غیر سیاسی قوتوں کے دفاترکے سامنے نہیں کیااور نہ ہی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں پھر یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہم اور برمحل ہے کہ کیا واقعی نقصان پہنچانے والے سیاسی کارکنان تھے اور ان کاتعلق پی ٹی آئی سے ہی تھا؟ اس سوال کا جواب کسی بھی صورت غیر جانبدارنہ تحقیقات کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ،کیا حکومت اس کا تشفی جواب حاصل کئے بغیر کارروائی کر پائے گی؟
اپنی اسی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے جہاں ملکی معیشت کے حوالے سے ذکر کیا وہیں انہوں نے سمگلنگ کی تباہ کاریوں پر بھی اظہار خیال کیا۔میڈیا میں مسلسل اس پر اظہار رائے ہو رہا ہے اور سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ڈی جی آئی ایس پی آر کو سویلین حکومت کے ہوتے ہوئے ،ملکی معیشت پر پریس کانفرنس کرنی چاہئے،کیا یہ ان کے دائرہ اختیار میں آتی ہے؟بالفرض اگر یہ ان کے دائرہ اختیا رمیں تصور کر لیں،تو پھر اسی پریس کانفرنس میں سمگلنگ کی تباہ کاریوں کے حوالے سے،ان کے فراءض کیا ہونے چاہئیں اور کیا یہ فرائض پورے ہو رہے ہیں؟ان کی اپنی زبانی کہ سمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہے تو سوال تو اٹھے گا کہ یہ سمگلنگ کن راستوں سے ہوتی ہے اور ان پر کون تعینات ہے اور اس کا سدباب کیوں ممکن نہیں ؟ڈی جی آئی ایس پی آر یا ان کے ادارے نے اس ضمن میں کیا اقدامات کئے، ان کے نتائج کیا رہے اور یہ مکمل طور پر بند کیوں نہیں ہوئی؟دوسری طرف چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا ابتدائی دنوں میں ،ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت پر تشویش اور بعد ازاں اقدامات اٹھانے پر ،ڈالر کی گرانی میں کمی پر انہی صفحات پر نہ صرف ان کی ستائش کی تھی بلکہ امید ظاہر کی تھی کہ جلد ہی ڈالرقابو کر لیا جائے گا لیکن صد افسوس کہ یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔ عدلیہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے فرمایا کہ عدالتیں ملزمان کو سزائیں نہیں دیتی، اس میں قصور صرف عدالتوں کا ہے یا استغاثہ ہی اتنا کمزور اور بغیر شواہد کے ہوتا ہے کہ عدالتیں ان ملزمان کو چھوڑنے پر مجبور ہو تی ہیں؟
اس کا قطعی مقصد یہ نہیں کہ پاکستانی شہری اس ملک میں بہتری کے خواہشمند نہیں اور نہ ہی یہ مقصد ہے کہ تردید برائے تردید کی جائے،اصل مطمع نظر سب کا یہی ہے کہ کسی بھی طور پاکستان کو ان مشکلات سے جلد از جلد نکالا جائے، جن کا شکار اس کو اشرافیہ کے ذاتی مفادات نے کر رکھا ہے۔قوانین کے مطابق ،جب تک بلا امتیاز ہر کسی کا محاسبہ نہیں ہوگا،ہر کسی کو کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا،ہر کس و ناکس اپنے اعمال کا جوابدہ نہیں ہوگا،اس ملک کو لوٹنے والوں سے لوٹا ہوا مال واپس نہیں لیا جائیگا،کسی کو ذاتی پسند و ناپسند پر تختہ دار پر لٹکانے سے گریز نہیں کیا جائیگا،معاملات میں بہتری کی امید دکھائی نہیں دیتی۔دنیا میں دیگر ریاستوں کے معاملات کو دیکھیں ،یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ اولا ریاستی مشینری کلیتا ریاستی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے باہم بروئے کار آتی ہے،خال ہی ایسی کوئی مثال نظر آئے کہ جہاں ریاستی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے،ذاتی پسند وناپسند پر امور ریاست نپٹائے جاتے ہوں۔پاکستان کا بنیادی مسئلہ اس وقت یہی نظر آتا ہے کہ ریاستی ادارے،ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر باہم گتھم گتھا دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ہونا اس کے برعکس چاہئے کہ ریاستی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے،ذاتی رنجشیں، عناد، گلے شکوے،پس پشت رکھ کر ریاستی امور سرانجام دینے کے لئے،ہر شخص،ادارے اور محکمہ کو قوانین کے عین مطابق اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے،باہم مل بیٹھ کر حل تلاش کرنا چاہئے،کہ یہی وقت اور ریاست کو بچانے کے تقاضے ہیں۔





