CM RizwanColumn

ظالمو! ماضی آ رہا ہے

سی ایم رضوان
جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کا دور، اس دور کی سیاست اور اس دور کی جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات و اصطلاحات بڑی مقبول ہوئی تھیں۔ وہ دور دراصل جدید اور قدیم سیاست میں حد فاصل کھینچنے کا دور تھا۔ تب جلسوں، دھرنوں اور عوامی شوز کی سیاست آخری عروج پر تھی اور آگے انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے پوسٹیں اور ویڈیوز اپ لوڈ کر کے سیاسی رائے بنانے اور سیاسی نتائج حاصل کرنے کا دور شروع ہونے والا تھا۔ تب ایک فقرہ زبان زد عام ہو گیا تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ پھر دور بدلا اور لوگوں کے ہاتھوں میں سیل فون آئے تو ساتھ ہی پی ٹی آئی نے بیرونی امداد اور بعد ازاں آئی ایم ایف سے لیا قرض سوشل میڈیا مہم میں جھونک دیا اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے اپنے مخالفین کو چور ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ اب جبکہ ایک طرف حکومت عوام کو مہنگائی کے خلاف ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کپتان اپنی بلیک میلنگ کی سیاست میں ناکام ہو چکا ہے اور اسٹیبلشمنٹ علیحدہ سے ترلے لے رہی ہے تو ایسے میں بظاہر ایک خالص عوامی ایجنڈا اور عوامی مقصد لے کر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نہ صرف ایک جم غفیر لے کر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں، ایک عدد کامیاب تقاریر کر چکے ہیں بلکہ آگے دھرنا دینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عوامی یا دوسرے لفظوں میں سیاسی ریلیف کے بغیر واپس نہ جانے کا ان کا اعلان اس قدر اثر انگیز ہے کہ حکومت نے فی الفور مذاکرات کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس ضمن میں اب اگر قاضی حسین احمد مرحوم کی غیر موجودگی میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ظالمو ماضی آ رہا ہے، یعنی ماضی کا وہ قاضی والا جوش و خروش واپس آ رہا جب لوگ جماعت اسلامی کے نعروں کو پسند کرتے تھے اور جماعت اسلامی بھی عوامی حقوق کے لئے میدان عمل میں خم ٹھونک کر دھرنا دے دیا کرتی تھی۔
دوسری جانب نظر ڈالیں تو سمجھ آتا ہے کہ 2018 ک عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار نظر آ رہی تھی تو بعدازاں 2024کے الیکشن میں تحریک انصاف بظاہر ویسی ہی صورتحال کا سامنا کرتی رہی۔ یہ بھی مشترکہ تاثر ہے کہ اپنی اپنی مشکل کے وقت میں ان دونوں جماعتوں نے اس مشکل کا الزام اسٹیبلشمنٹ کے سر ڈالا ہے جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی وسیع ترین قوت برداشت سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اسی فیض کے بل بوتے پر اب وہ ن لیگ سے سابقہ مظالم کا بدلہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس صورتحال میں عام پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان کے مسائل کا حل کون کرے گا تو جواب تو اس کا یہ ہے کہ یہ حل عوام نے خود ہی سوچنا ہے اور اگر ہمارا مشورہ پوچھا جائے تو ہم تو یہی کہیں گے کہ پاکستانی عوام اپنے وجود اور حقوق کو منوانے کے لئے متحد ہو جائیں اور کل کلاں جب بھی عام الیکشن ہوں تو پوری قوم صرف ایک الیکشن کا بائیکاٹ کر دے پھر یہ سب سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز دنیا کے سامنے ننگے ہو جائیں گے اور رسوا ہونے کے بعد عوام کی بات کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ بقول ان سیاستدانوں کے آج اگر مسئلے کی جڑ ایک اسٹیبلشمنٹ ہی ہے تو یہ جماعتیں اس معاملے پر ایک پیج پر کیوں نہیں آتیں۔ مطلب یہی ہے کہ یہ سب مفاد پرست ہیں اور عوام کو دھوکا دے کر جھوٹی لڑائیاں، جھوٹے احتجاج اور جھوٹے دھرنے دیتے ہیں۔
ایک اور ظلم موجودہ نظام یہ کر رہا ہے کہ گزشتہ سال نو مئی کو عسکری تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے واقعات کے بعد تحریک انصاف نے خود کو دہشت گرد جماعت ثابت کیا مگر افسوس کہ پورا نظام اس کو برداشت بھی کر رہا ہے اور نظام کے چند پرزے اس کی سہولت کاری بھی اپنی حدود سے کہیں آگے جا کر کر رہے ہیں اس سے ان سٹیک ہولڈرز کی حب الوطنی کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ پاکستان میں حقیقی طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے تو عوامی فلاح کے لئے اس سے بھی سیاستدان بات کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ملک کے سیاستدانوں کو ایک ساتھ مل کر بیٹھنی میں آخر مسئلہ کیا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی پارلیمان میں سیاستدان عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کا آپس میں بات کرنا اہم سمجھا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے سیاستدانوں کے درمیان ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی ہائبرڈ نظام چلایا۔ انہوں نے باضابطہ طور پر کوشش کی کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ملک کو ایک خاص ڈگر پر چلائیں اور بانی پی ٹی آئی نے ان کی اشیرباد سے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈالا مگر یہ تجربہ بُری طرح ناکام ہوا تو جیسے سیاستدان اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں ویسے ہی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے تجربے سے سیکھتی ہے۔ اسی لئے انہوں نے پی ٹی آئی کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹانے کا فیصلہ کیا جو کہ بقول واقفان حال ہنوز ہٹا ہوا ہے۔
اب جبکہ پولیس کے کئی چھاپوں، راستوں کی بندش اور متعدد پابندیوں کے باوجود جماعت اسلامی کے امیر کارواں کے ساتھ اسلام آباد میں پہنچ کر کامیاب شو کر چکے ہیں تو یار لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کہلوانے والی جماعت اسلامی کو پھر سے کوئی اہم مقام مل گیا ہے اور رات کی روشنیوں میں جس طرح ان کے جلسے کو بھرپور کوریج ملی تو پی ٹی آئی کے وہ جلسے یاد آ گئے ہیں جب کبھی اسے طاقتور حلقوں کی سرپرستی حاصل تھی اور تعداد اور کوریج ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ بہرحال عوامی طبع کے ایک ماہر نباض کی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے جمعہ کو اسلام آباد میں مذکورہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ڈی چوک ضرور جائیں گے ابھی پلان بی پر عمل کر رہے ہیں۔ میں نے اسلام آباد آنے کا کہا تھا اور وہ ہم آ گئے ہیں۔ ابھی ہم نے پلان بی کے پہلے حصے پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ختم نہیں ہوگا بلکہ ابھی تو آغاز ہے۔ فارم 47کی پیداوار حکومت نے آج فسطائیت کی انتہا کی ہے۔ اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ کے بعد ایکسپریس وے پر حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک عظیم مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اور وہ عظیم مقصد ہے ظلم کے اس نظام کا خاتمہ جو پچھلے 77سال سے ہم پر مسلط ہے، اس کے ہر چلانے والے نے لوگوں پر مزید ظلم کیا ہے، بجلی کے بم پھینکتے ہیں، آئی پی پیز کو مسلط کر رکھا ہے۔ پاکستان کے ہزاروں ارب روپے ہر سال کھا جاتے ہیں، مل کر لوٹ مار کرتے ہیں۔ ہم سب یہاں پر اپنی ذات کے لئے نہیں پاکستان کے 25کروڑ عوام کو انصاف اور حق دلانے کے لئے آئے ہیں، آپ نے دو ہی دن میں برسوں کا سیاسی سفر طے کر لیا۔ اب پورا پاکستان آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حکومت نے خوفزدہ ہو کر ہمارے دفاتر پر چھاپے مارے، ہمارے کارکنوں اور رہنماں کے گھروں پر پہنچے، انہیں گرفتار کیا۔ اسلام آباد آنے والے سیکڑوں کارکنان کو بھی گرفتار کیا۔ ہم پرامن لوگ ہیں۔ ہمارے کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ ایک طرف تم ہم پر بجلی کے بم گرائو۔ آئی پی پی مافیا کو ہم پر مسلط کرو اور جب ہم آواز اٹھائیں تو حکومتی فسطائیت کا مظاہرہ کرتے ہو، عوام کا جماعت اسلامی پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ اب یہ سیلاب رکنے والا نہیں۔ امیر جماعت اسلامی نے کارکنوں کو پولیس سے نہ لڑنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پولیس والوں سے نہیں لڑیں گے، پولیس والے تو خود اپنے افسران اور حکومتی محکموں سے پریشان ہیں، ہمارے دھرنے کی وجہ سے دو تین دن سے ان کی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس لئے آپ نے ان سے نہیں لڑنا اور میں پولیس والوں اور ان کے افسروں سے کہتا ہوں کہ آپ بھی ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں، ہم پرامن سیاسی مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اس تحریک میں پرامن رہنا ہے کیونکہ یہ سازش کریں گے اور امن کو خراب کر کے ایشوز سے توجہ ہٹانے کی کوشش کریں گے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے پلان بی کے دوسرے مرحلے کے تحت ہم مری روڈ پر پہنچ کر اپنی قوت کو مجتمع کریں گے۔ ہم ریلیف لینے کے لئے آئے ہیں، یہ بجلی کی قیمت کم کر دیں، آئی پی پیز کو بند کرنے کا طے کر لیں، تنخواہ دار طبقے کے لئے سلیب سسٹم ختم کر دیں، پٹرول پر لیوی ختم کر دیں۔ آٹا، چینی، چاول، دال اور بچوں کے دودھ پر ٹیکس ختم کر دیں۔ ہم دھرنا ختم کر دیں گے۔ ہمیں دھرنا دینے کا کوئی شوق نہیں۔ یہ نہیں مانیں گے تو ہم بھی اپنا راستہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے قبل اسلام آباد جانے والے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور وفاقی دارالحکومت کو مکمل طور پر بند کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے دھرنے کے حوالے سے پلان بی منظر عام پر لاتے ہوئے شہر کے تین مختلف مقامات پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ بہرحال موجودہ جماعت اسلامی قیادت نے ماضی کی یاد تازہ کر دی ہے۔

جواب دیں

Back to top button