ColumnImtiaz Aasi

غلامی سے آزادی

امتیاز عاصی
اگرچہ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے مسلمان ملک مغرب کی معاشی غلامی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن وقت آگیا ہے ہمیں کسی نہ کسی طریقہ سے مغرب کی غلامی سے نکلنا چاہیے۔ ملک کے وجود آنے کے بعد مغرب کی غلامی سے نکلنے کی سنجیدگی سے کوشش کی جاتی تو کوئی وجہ نہیں تھی ہم ان کے معاشی طور پر غلام ہوتے۔ ہمیں سیاست دانوں پر حیرت ہوتی ہے اقتدار میں ہوتے ہیں تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے میں عار محسوس نہیں کرتے چنانچہ جیسے ہی اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہیں انہیں مغرب کی غلامی سے آزادی یاد آجاتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارا ہر شہری مغرب کا معاشی طور پر غلام ہے حالانکہ جس دین کے ہم پیرو کار ہیں وہ ہمیں غلامی سے نجات حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔1985سے پہلے کچھ نہ کچھ پردہ داری تھی اس کے بعد جن لوگوں کو اقتدار ملا وہ بیرون ملک اپنے اثاثے بناتے رہے۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے بھی اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد غلامی سے آزادی کا نعرہ لگایا تاہم ان کا غلامی کا نعرہ واضح نہیں ہو سکا ہے وہ مغرب کی غلامی سے آزادی کی بات کرتے ہیں یا پھر بعض اداروں کی غلامی سے آزادی کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اگر ہم مغرب کی غلامی سے آزادی کی بات کریں تو ہمیں اپنی معاشی پالیسیاں ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں غیر ضروری اخراجات میں کمی اہم جزو ہے اگر اداروں کی غلامی سے آزادی مطلوب ہے تو تمام سیاست دانوں کو صدق دل سے یکجا ہونا ہوگا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے مغرب کی معاشی غلامی سے نجات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے ابھی آزادی کی سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی انقلاب حکومت نہیں عوام لاتے ہیں لہذا معاشرے کے مختلف طبقات یکجا ہو کر آزادی کی کوئی راہ نکالیں۔ ان کا کہنا تھا الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگتا ہے اگر عوام کھڑے ہو جائیں تو حکومت گھٹنے ٹیک دے گی۔ درحقیقت ہم مغرب کی غلامی سے تبھی نکل سکتے ہیں جب ہم غیر ملکی اشیاء کی درآمد روک کر وطنی اشیاء پر دارومدار کریں۔ قدرت نے ہمیں جن وسائل سے مالا مال کیا ہے وہ کسی اور ملک میں دستیاب نہیں اس کے باوجود ہم مغرب کی غلامی سے نکل نہیں پائے۔ ایٹم بم بنا لیا لیکن ریکوڈک سے نکلنے والا محلول ہم اپنے ملک میں ری فائن نہیں کر سکتے۔ دراصل ہم نے آزادی سے اب تک اپنی معاشی پالیسوں کا انحصار مغربی دنیا پر کر رکھا ہے خود انصاری کی طرف ہم نے توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ورنہ یہ ممکن نہیں ہم معاشی طور پر مغرب کے غلام ہوتے۔ عجیب تماشا ہے آئی ایم ایف سے قرض لے کر ہم غیر ملکی اشیاء درآمد کرتے ہیں۔ ہم سے بعد آزادی حاصل کرنے والے ملک ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ جمہوریہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا۔ چین کی مصنوعات دنیا میں جا رہی ہیں جن سے وہ کثیر سرمایہ کما رہا ہے۔ کوئی ملک ہمیں قرض دینے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے سرمایہ کاری کا راستہ روک رکھا ہے۔ ہم غیر ملکی مہمانوں کو زندگی کا تحفظ نہیں دے سکتے تو ہمارے ہاں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ ہماری خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے افغانستان جیسا ہمسایہ ہم سے ناراض ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو رکھنے کے باوجود ہمارا دشمن بنا ہوا ہے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہم افغانستان سے دور ہیں۔ ہماری سرحدوں پر سمگلنگ عروج پر تھی چلیں سپہ سالار کی کاوشوں سے ڈالر کی سمگلنگ میں کچھ کمی آئی ہے۔ درحقیقت ہمارے ہاں سزا و جزا کا فقدان ہے، قانون میں سمگلنگ کرنے والوں کو موت کی سزا رکھی جائے، اسی طرح کرپشن میں ملوث لوگوں کو سزائے موت دینے کا قانون بن جائے تو معاشرے میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ جس ملک میں ہر کوئی دولت بنانے میں لگا ہو اس ملک کا حال ہمارے جیسا ہوتا ہے۔ حال ہی میں افغان شہریوں نے فرینکفرٹ میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے پاکستانی پرچم اتار لیا ہے۔ تعجب ہے ملک اور بیرون ملک جہاں کہیں اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے حکومتی وزرا کو عمران خان کی جماعت یاد آجاتی ہے۔ اللہ کے بندوں اپنی پالیساں ٹھیک کرو اور ہمسایوں سے بہتر تعلقات رکھو تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو سکے۔ ہمارے ایک دوست سینیٹر ملک فرید اللہ خان شہید نے جنرل پرویز مشرف کو فاٹا کے لوگوں کو نہ چھیٹرنے کا مشورہ دیا تھا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردی روکنے کا واحد راستہ بہترین سفارت کاری ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد محض احتجاجی مراسلوں سے کام نہیں بنے گا بلکہ طالبان حکومت سے اچھے تعلقات رکھنے میں ہماری بہتری ہے۔ امریکی جاتے وقت جو اسلحہ چھوڑ گئے وہی لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں جنہیں ہم نے پالا پوسا تھا وہی ہمارے دشمن ہیں
احسان فراموشی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ افغان پناہ گزینوں کو بجائے ملک سے واپس کرنے کے بار بار ان کے قیام میں توسیع دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ایران میں ہم سے زیادہ افغان پناہ گزیں قیام پذیر رہے کسی ایک کو مہاجر کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ سب ہماری حکومتوں کا کیا دھرا ہے جو عوام بھگت رہے ہیں بھلا انہیں کیمپوں سے باہر نکلنے کی آزادی کیوں دی گئی۔ بعض اخبارات کی رپورٹس کے مطابق کے پی کے کہیں اضلاع میں حکومتی رٹ نہیں ہے۔ بنوں کا سانحہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اب وقت آگیا ہے حکومت اور ذمہ دار اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ مبینہ طور پر کرپٹ ہیں جن کی کرپشن سے غیرقانونی تارکین وطن یہاں قیام کئے ہوئے ہیں۔ جس ملک کی داخلی صورت حال حوصلہ فزاء نہیں ہوتی ایسے ملکوں میں سرمایہ کاری خو اب بن جاتی ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو عقل صمیم دے وہ وطن اور یہاں کے رہنے والوں کے لئے خوشحالی لا سکیں ورنہ ہمارا ملک اغیار کی غلامی سے کبھی آزادی حاصل نہیں کر سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button