Column

آتی ہے اردو زباں آتے آتے

صفدر علی حیدری

لوگوں میں عام بول چال کے لیے استعمال ہونی والی زبان کو زبانِ رابط عامہ کہتے ہیں۔
رابطہ کی زبان سے مراد ایسی زبان ہے جسے ہر فرد با آسانی نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکے ۔ اس کی بہترین مثال ہماری اردو زبان ہے ۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی ، ثقافتی اور بڑی جامع زبان ہے ۔ یونی کوڈ کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو تیسری بڑی زبان ہے ۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دیگر خطوں میں 80کروڑ سے زائد افراد اسے رابطہ کی زبان کی حیثیت سے استعمال کر رہے ہیں ۔ اردو زبان کو سولہویں صدی سے ہی رابطہ کی زبان کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے ۔ اپنے شروع کے ادوار میں اردو مختلف ناموں سے جانی جاتی رہی ہے ۔
اُردُو برصغیر پاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے ۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے ۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جب کہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے ۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہوئی ہے ۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا ۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں ۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے ۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے ۔ نیپال میں ، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے ۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے ۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج اردو زبان دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے ۔ اُردو کو یو این او کی دفتری زبان کا درجہ بھی حاصل ہو چکا ہے۔
اس نسبتا نئی زبان نے کئی قدیم زبانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ اس کی قبولیت عامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ کہ لوگ اسے بولنے لکھنے اور پڑھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ یہ دیگر بات کہ جہاں اردو سے محبت کرنے والے کثیر تعداد میں ہیں، وہیں اس کے حاسد بھی کچھ کم نہیں مگر ۔۔
اُردو پہ جو چلاتے ہیں وہ شمشیر ہمیشہ
اُردو میں کرتے ہیں جو تقریر ہمیشہ
تاریخ عالم نے گواہی دی ہے کہ کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا ۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے الفاظ ہماری رہنمائی کرتے ہیں: ’’ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی ‘‘۔
تہتر کے آئین کے مطابق ریاست پابند ہے کہ اردو کو بطور سرکاری ، تعلیمی اور عدالتی زبان کے نافذ کرے ۔ 1973ء کے آئین میں پندرہ سال کی مہلت دی گئی تھی اور اس کے بعد 2015ء میں ملکی عدالت عالیہ نے بھی نفاذ اردوکے لیے حکم جاری کیا لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ہم ذاتی طورپرایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کی اردو زبان سے وابستگی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن ان کے بچے بدیسی زبان کے ذریعہ تعلیم میں زیر تربیتہیں کیوں کہ ایسے والدین اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اردو زبان میں بنیاد سازی نہیں ہوسکتی ۔
نجانے ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔ مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں ۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں ۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہو چکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے ۔ پاکستانی اور ہندوستانی پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ۔ پاکستان کی تبلیغی جماعت پوری دنیا میں جاتی ہے جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج کا بھی سبب بنتی ہے ۔ اس کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان اور بھارت کے کروڑوں انسان اردو بولتے، لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں ان ملکوں سے اردو میں لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں ۔ بہت سے اخبارات، ماہنامے اور سالنامے شائع ہوتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں اس کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں ۔
دستور پاکستان کے آرٹیکل 251کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔ انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی ۔ لہٰذا اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے ۔
اردو اپنے لب و لہجہ، رکھ رکھائو، روز مرہ محاوروں، اندازِ بیان، موضوع و مواد اور مختلف الفاظ کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے ایک مکمل زبان ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مرکبات کے اصول اور قواعد میں ہر زبان سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن بحیثیت مجموعی وہ کسی کی پابند نہیں ہوئی، بلکہ اس نے اپنی لغت، اپنا اسلوب، صرفی و نحوی قاعدے واحد جمع، تذکیر و تانیث کے اصول الگ بنا لیے ہیں اور انہی کی پابندی اردو کی فصاحت و بلاغت اور حسن کا معیار متعین کرتی ہے ۔
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا جرم اور گناہ تو نہیں ہے ، مگر اپنی زبان کا ترک ایسا جرمِ عظیم ہے جو پوری قوم کو تنزل میں دھکیل دیتا ہے ۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسروں کی زبان کے پیچھے اس قدر پڑ جانا کہ رات دن اسی کو منہ مروڑ کر بولنے کی کوشش کی جائے کہ جیسے ساری کامیابی اسی میں ہے، حالاں کہ معاملہ اس کے اْلٹ ہے۔ کسی دوسری زبان کی تحصیل بطور ثانوی زبان ہونی چاہیے اور بطور ثانوی زبان ہی اسے اہمیت دینی چاہیے، جبکہ اپنی زبان کو اولین حیثیت دینی چاہیے۔ دنیا میں کتنے چھوٹے بڑے ملک ہیں جنہوں نے ہماری طرح انگریزی کا سہارا بھی نہیں لیا، ترقی بھی ہم سے زیادہ کی ہے اور اپنی زبان کا دامن بھی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے، اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کرا رہے ہیں۔
اصل میں قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے بالاتفاق ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں، قوم مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا رونا روتی رہتی ہے اور حکومتی سطح پر انگریزی کو اہمیت دی جاتی ہے ۔
افسوس کا مقام ہے آئین پاکستان میں اردو کو جو مقام حاصل ہے وہ یہاں دفتروں ، عدالتوں میں نظر نہیں آتا ۔ اردو ہمارے قومی نصاب تک کا حصہ نہیں بن سکی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل بالخصوص ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب دیں ؛ کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے، اور آج کل کے زمانے میں غیر زبان کی لپیٹ میں اردو لکھنا اور بولنا نئے بچوں کے لیے کسی محاذ سے کم نہیں رہا ۔ لہذا اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہم سب اس مہم میں شریک ہوں ۔ اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں اور اس کی بقا اور تحفظ اور اس کو اس کا حق دلوانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
سلیقے سے ہوائوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
اردو ایک آسان زبان ہے مگر اس کے لیے اسے اپنانا ہو گا تبھی یہ آتے آتے آئے گی
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں اور
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اُردو آئے

جواب دیں

Back to top button