شہر آسیب کے باسی

صفدر علی حیدری
سائنسی ترقی کے بدن سے سوشل میڈیا کا جنم ہوا جس نے ہر شخص کو بے باک بنا دیا ہے۔ آج ہر شخص خود ساختہ دانش ور ہے ۔ جس موضوع پر چاہے لکھ سکتا ہے بول سکتا ہے۔ اب وہ الٹا سیدھا لکھ رہا ہے یا ٹیرھا میڑھا کس کو پروا ہے ۔ اس کی اچھی بات پر تنقید کرنے والوں اور آئوٹ پٹانگ بات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ۔ بلکہ اکثر صورتوں میں تو ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی معاملہ ہو اس کی خبر مع تبصرہ جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر نشر ہو جاتا ہے، سنجیدہ بات کو مزاحیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش کیا جانا ایک عمومی روش ہے۔ ہر صارف اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ کہیں رہ نہ جائے ، اسے تاخیر نہ ہو جائے ۔ بس پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے۔ سو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ۔
سیاست ہو ، تعلیم ہو ، اخلاق ہو یا مذہب ۔۔ کچھ بھی فیس بکی ’’ دانش زدوں ‘‘ کی زد اور دس رس سے دور رس اور دس برد سے دور نہیں۔ پھر جب بحث چلتی ہے تو ہر کوئی خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے پر تل جاتا ہے ۔ پھر نوبت با ایں جا رسید کہ نوبت گالم گلوچ اور گھر تک پہنچ جاتی ہے، کسی معاملے سے ہمارا تعلق ہو نہ ہو ہم نے ہر کام اور ہر بات میں
ٹانگ اڑانی ہوتی ہے۔ دجالی میڈیا کا پلیٹ فارم ہم سب کو میسر ہے جہاں فرشتے کو شیطان اور شیطان ثابت اس دجالی میڈیا کی بائیں آنکھ کا کام ہے۔ کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ پیش آنے والا اندوہ ناک سانحہ بھلائے نہیں بھولتا۔ دو بھائیوں کو کسی وجہ سے ایک مشتعل ہجوم نے گھیر کر مار ڈالا۔ تب الیکٹرانک میڈیا کی وبا نئی نئی آئی تھی۔ اسے تو ایسے واقعات اللہ دے ۔ میڈیا پر دونوں بھائیوں کو پٹتا مرتا ہوا براہ راست ( کمنٹری کے ساتھ ) دکھایا گیا۔ لب لباب یہ تھا کہ جب قانون اپنا کام نہیں کرتا تو لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور مجرموں کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ یہ سارا منظر سارا دن بار بار دہرایا اور دکھایا جاتا رہا تھا ۔ پولیس کے لوگ کام لپیٹ کر
پھرتے دکھائی دئیے ، سپاٹ چہرے لیے ، لا تعلق سے ۔۔۔ شام کو پتہ چلا کہ وہ لڑکے مجرم نہ تھے۔ اب کیا تھا دجالی میڈیا نے بائیں آنکھ بند کر کے اپنی دائیں کھولی اور تشدد کی انہی ویڈیوز پر نئے زاویے سے وائس اوور کر رہے تھے۔ یہ دیکھیں جب قانون سو جائے تو عوام کے ہاتھ بے باک ہو جاتے ہیں اور ان ہاتھوں کا نشانہ مظلوم شہری بنتے ہیں۔ دو معصوم لڑکوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ تو برسوں پرانی بات تھی تب تو سوشل میڈیا بھی اتنا متحرک اور عام نہیں تھا۔ ہم آج کی بات کرتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا قوم کے حواسوں پر چھا چکا ہے ۔ آج کی صورت کے لیے بس ایک مثال ہی کافی ہے خلیل الرحمٰن قمر ایک معروف ( اور متنازعہ بھی ) ڈرامہ نگار ہے۔ وہ اپنے انٹرویوز اور بیانات کے حوالے سے بھی خاصے معروف مگر متنازعہ ہیں ۔ ان کے کریڈٹ پر درجنوں ڈرامے ہیں۔ میرے پاس تم ہو نے بطور خاص ان کی شہرت کو چار چاند لگائے ۔ یہی ڈرامہ ان کو متنازعہ بھی بنا گیا ۔ وہ ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کے گمراہ کن ہیروکاوں کی ہٹ لسٹ پر آ گئے ۔ اس گروہ کی ایک بڑی ترجمان کو انہوں نے ’’ بدبودار عورت اور تیرے جسم میں رکھا کیا ہے ‘‘ تک کہہ دیا ۔ حال ہی میں طاغوت کے حوالے سے بھی وہ تنقید کی زد میں تھے۔ ابھی اس واقعے کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ ان کے ساتھ ایک اور وقوعہ پیش آ گیا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ اور حسب توقع ان پر تنقید کرنے والے غالب اکثریت میں ہیں ۔
ایف آئی آر کے مطابق ان کے ساتھ یہ وقوعہ پندرہ جولائی کو پیش آیا۔ جس میں گھر بلوا کر مارا گیا، رقم چھینی گئی ، حبس بے جا میں رکھا گیا اور پھر ایک ویرانے میں چھوڑ دیا گیا ۔ اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور موصوف ایک پریس کانفرنس بھی کر چکے ہیں ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وہ مخرب الاخلاق عورت بھی گرفتار کر لی گئی ہے ۔کسی بیوقوف سے بیوقوف شخص سے بھی یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ ساڑھے چار بجے کسی خاتون کے بلانے پر دوڑا چلا جائے۔ قمر صاحب کا موقف یہ ہے کہ دس سے وہ خاتون رابطے میں تھی اور ڈرامہ بنانے کے حوالہ سے بات چیت کرنا چاہتی تھی اور علی الصبح اس لیے چلے گئے کہ ان کی آنکھوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور ڈاکٹروں نے دھوپ میں نکلنے سے منع کر رکھا ہے ۔
ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ یہ واقعہ کیوں کر پیش آیا ۔ افسوس ہے تو اس بات کا کہ فیس بک کے دانش زدہ صارف اسی پر حملے کر رہے ہیں جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ اس بات کا دلی دکھ ہے ۔ ہم ایسے ہجوم میں بدلتے جا رہے ہیں جن کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ کہیں اونٹ کی ٹانگ کٹنے پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں تو کہیں مظلوموں کا مذاق بنانے اور اڑانے سے نہیں چوکتے ۔ دکھ کی خبر کو ہوا میں اڑتے ہیں تو کبھی خوشی کی اطلاع پر رونے لگتے ہیں ۔
منفرد بننے کا شوق ہمیں اور کتھا گرائے گا ، یہ شہرت کی بھوک ہمیں کہاں لے آئی، ہم محترم بنے بھی تو کردار بیچ کر کون سچا ہے کون چھوٹا اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا ۔ کون بلیک ہوا ، کس نے کیا ، کس نے پلان بنایا ، کون لٹا ، کس نے لوٹا ۔۔ یہ کہانی پھر سہی
ایک عورت گوجرانولہ سے سٹار بننے آئی اور دونوں طرف سے لوٹی گئی ( بقول اس کے اپنے ) اس واقعے میں ہماری بچیوں کے لیے بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ ان کو گھر سے قدم نکالنے سے پہلے یہ سوچ لینا ہو گا کہ اس شہرت کے لیے کردار کی بھینٹ چڑھانا پڑے گی ۔ جس کے لیے کردار کوئی مسئلہ نہیں وہ چاہے تو گھر سے نکل جائے مگر جس کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے وہ گھر بیٹھے اور نارمل انداز سے زندگی گزارنے کی کوشش کرے ، آج جبکہ شہر شہر میڈیا ہائوسز کھلے ہوئے ہیں اور گلی محلے میں فلمیں بن رہی ہیں، کسی لڑکی کا گھر چھوڑ دیا اچنبے کی بات ہے ۔ یہ والی خدمت کو اپنے شہر میں بھی ہو سکتی ہے ۔ اس کے لیے دوسرے شہر میں جانے اور اتنا تردد کرنے کی ضرورت کیا ہے، اگر ہماری بچیوں کو اپنا کردار عزیز ہے ( اور اکثریت کو یقینا ہے ) تو ان کے لیے فیس بک ، انسٹا گرام ، ٹوئیٹر ، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب چینل کی سہولت گھر میں موجود ہے ۔
سو رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
فیس بکی مجاہدین کے لیے یہ شعر ہدیہ کیا جاتا ہے
شہر آسیب میں صرف آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا







