Column

آصف علی زرداری۔ ایک سیاسی درس گاہ !

شرجیل انعام میمن

صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری کی آج 69ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔ یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان کے استحکام ، پاکستان کی جمہوریت اور سیاست اور پاکستان کے عوام کے لیے ان کی خدمات کا ادراک کیا جائے اور ان کے تاریخ ساز کارناموں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے ۔
آصف علی زرداری کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بقا اور جلا کے لیے کام کیا ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں کے ذریعہ شہید کرانے کا مقصد یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کو ختم کر دیا جائے کیونکہ پیپلز پارٹی وہ سیاسی جماعت ہے ، جس نے 1960ء کی دہائی میں پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کو ایک طاقتور سیاسی دھارے میں تبدیل کیا اور اب تک اس جمہوری جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی نہ صرف پاکستان کے عوام کے اتحاد بلکہ ملکی یکجہتی کا ایک ادارہ ہے ۔ اس کو بچانا اور اسے دوبارہ مضبوط بنانا جمہوری اور ملکی استحکام کے لیے یقینا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے ۔
مرد حر آصف علی زرداری کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ 1973کے آئین کو بحال کیا ، جو پاکستان کے وفاق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ آئین میں یہ ضمانت وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعہ دی گئی ہے ۔ آصف علی زرداری نے ملک اور جمہوریت کی خاطر 18ویں آئینی ترمیم کے تحت اپنے صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دیئے ۔ اب حکومتیں بنانے ، تبدیل کرنے اور خود کو تحلیل کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ ایک اور بڑا کام یہ ہوا ہے کہ عوام کے جمہوری اقتدار پر غیر سیاسی قوتوں کے قبضہ کرنے یا سیاسی عمل میں مداخلت کے راستے تقریبا مسدود ہو چکے ہیں ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دے دی گئی ہے ۔ اس سے چھوٹی وفاقی اکائیوں کا احساس محرومی ختم ہوگیا ہے اور وفاق پاکستان مضبوط ہوا ہے ۔
صدر مملکت آصف علی زرداری کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کو ختم کرنے کے لیے 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ ساتھ بہت اہم سیاسی فیصلے کئے ۔ انہوں نے شمال مغربی سرحدی صوبہ ( این ڈبلیو ایف پی ) کو خیبرپختونخوا کا نام دے کر اس وفاقی اکائی کو ایک شناخت دی ۔ اس شناخت کے بعد اس صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو گیا کہ یہ علاقے عالمی طاقتوں کے گریٹ گیم کے لیے ’’ بفرزون ‘‘ ہیں ۔ آصف علی زرداری نے 2009میں گلگت بلتستان ریفارمز کے ذریعہ ان علاقوں کو بھی پہلی مرتبہ ایک اکائی کے طور پر شناخت دی ۔ اس شناخت سے بھی پاکستان کے لیے خطرات کم ہوئے ۔ آصف علی زرداری نے بلوچستان کے عوام سے ہونے والی زیادتیوں پر نہ صرف معافی مانگی بلکہ انہیں پاکستان کے بنیادی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ’’ حقوق بلوچستان پیکیج ‘‘ دیا۔
دیگر بے شمار عظیم کارناموں میں سے آصف علی زرداری کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا ۔ مفاہمت پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کا بنیادی فلسفہ ہے ۔ 1967میں پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کی ’’ بنیادی دستاویز ‘‘ خود تحریر کی ۔ اس کا پہلا باب مفاہمت سے متعلق ہے ۔ پھر 1970سے 2024تک پیپلز پارٹی کے ہر انتخابی منشور میں مفاہمت پر ایک ایک باب شامل ہے۔ مفاہمت کا فلسفہ یہ ہے کہ سیاسی قوتیں آپس میں لڑنے کی بجائے کسی سیاسی اور جمہوری پروگرام پر متفق ہو کر جمہوریت اور عوام کے حقوق کے لیے مل کر پیش رفت کریں ۔ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے مفاہمت کے فلسفہ کو جس طرح عملی جامہ پہنایا ، اس کی جدید تاریخ میں کہیں اور مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے اس مفاہمتی سیاست کے ذریعہ 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری سمیت جمہوریت اور عوامی حقوق کے لیے عظیم کامیابیاں حاصل کیں ۔ انہوں نے سیاسی قوتوں سے مفاہمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی غیر سیاسی قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کا راستہ بھی اختیار نہیں کیا اور نہ ہی کسی قسم کی مہم جوئی کی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تیسری دنیا کے جن جن ملکوں میں سیاسی قوتوں نے ٹکرائو یا مہم جوئی کا راستہ اختیار کیا ، اس سے سیاسی قوتوں کو نقصان ہوا ۔ سیاسی اور جمہوری ارتقا سے ریاستی اداروں کے ’’ ایڈجسٹ‘‘ ہونے کا راستہ بند نہیں ہونا چاہئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ٹکرا اور تلخی والی جس روایتی سیاست کی مخالفت کر رہے ہیں ، وہ دراصل اسی مفاہمتی سیاست کا تسلسل ہے ۔ آصف علی زرداری کی قومی اسمبلی میں اس تاریخی تقریر کا حوالہ دینا یہاں ضروری ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہماری نسل کی سیاست کا دور ختم ہونے جا رہا ہے ۔ اب ہم جو کام کر سکتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کو نفرت اور تقسیم کی سیاست کا ورثہ منتقل نہ کریں ۔ مفاہمتی سیاست کے ذریعہ آصف علی زرداری نے سیاست میں تدبر ، برداشت ، رواداری اور شائستگی کو رواج دیا ۔ انہوں نے سیاست میں عظیم روایات کو پروان چڑھایا ، جو حقیقی سیاسی قوتوں کے لیے قابل تقلید رہیں گی ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری کا نام ان عظیم سیاست دانوں میں سرفہرست رہے گا ، جنہوں نے طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ وہ 11سال تک پابند سلاسل رہے ۔ انہوں نے بے شمار جھوٹے سیاسی مقدمات کا سامنا کیا اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے صرف قانون کا راستہ اختیار کیا ۔ ایک ایک دن میں ان کی مختلف عدالتوں میں کئی کئی پیشیاں ہوتی تھیں ۔ کسی بھی مرحلے پر نہ تو ان کا عزم و استقلال متزلزل ہوا اور نہ ہی انہوں نے سمجھوتہ کیا ۔ انہوں نے پاکستان کی عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کا احترام کیا اور یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں ، لہذا ان پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ انہوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو کبھی اداروں پر حملہ کرنے کے لیے نہیں اکسایا ۔ انہوں نے شہید بھٹو ، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دیگر ہزاروں کارکنوں اور رہنمائوں کی طرح عدالتی فیصلوں کو تسلیم کیا ۔ انہوں نے کبھی ریاستی اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی پر عمل نہیں کیا اور ملک کو انتشار میں نہیں دھکیلا ۔ انہوں نے زبردست استحقامت کے ساتھ اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور پاکستان و جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کرتے رہے ۔ ان کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف تاریخ کے بدترین پروپیگنڈے اور میڈیا ٹرائل پر انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور صرف اس فلسفے پر عمل کیا کہ کسی بھی سیاسی رہنما کے مقام اور مرتبے کا تعین تاریخ کرتی ہے نہ کہ مخالفین کا پروپیگنڈا۔ ان کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے بنیادی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوری جدوجہد کے ثمرات کو عوام تک پہنچایا ۔ عوام کو روزگار ، رہائش اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ، مالیاتی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنے اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے منصوبوں پر عمل کرنے کے پارٹی پروگرام کو جاری رکھا۔
جو کچھ آصف علی زرداری نے پاکستان اور عوام کے لیے کیا ، وہ ان کے بلند تر سیاسی شعور کا مظہر ہے ۔ انہوں نے ایک سیاسی خانوادے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد حاکم علی زرداری ایک ایسے سیاست دان تھے ، جو اپنی روح سے ترقی پسند اور عوام دوست تھے ۔ ان کے نہ صرف پاکستان کے ترقی پسند اور جمہوری سوچ رکھنے والے سیاست دانوں سے گہرے تعلقات تھے بلکہ وہ عوام دوست اور ترقی پسند تنظیموں اور افراد کی مالی معاونت بھی کرتے رہتے تھے ۔ (باقی صفحہ 5پر ملاحظہ فرمائیں)

پاکستان کے معاملات پر ان کی سوچ بالکل واضح تھی ۔ آصف علی زرداری کو یہ سیاسی شعور ورثہ میں ملا ، جسے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کی وجہ سے جلا ملی ۔ یہ ان کے اعلیٰ سیاسی شعور، تدبر، استحقامت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ انہیں دوسری مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر ہونے کا اعزاز ملا ہے۔ یہ اعزاز کسی اور کو نہیں ملا ۔ ان کی وجہ سے بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی دوسری مرتبہ حکومت قائم ہوئی ہے۔ آصف علی زرداری کا شمار تاریخ میں ان رہنمائوں میں کیا جائے گا ، جن کی سیاسی روایات مدتوں رائج رہیں گی اور جن سے سیاست کے طالب علم رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ وہ سیاسی مخالفین کے لیے بھی سیاست کی درس گاہ ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button