
تحریر : سی ایم رضوان
لگتا یوں ہے کہ جیسے آج بھی اور آج سے پہلے پی ڈی ایم اور نگران حکومت دونوں ادوارِ میں اصل اور حتمی اختیارات بانی پی ٹی آئی اور ان کے پس پردہ اور ظاہری حمایتیوں کے پاس تھے اور شاید اب بھی انہی کا سکہ چلتا ہے جبکہ حکمرانوں میں سے کچھ بیچارے اپنا سیاسی اثاثہ گنوا رہے ہیں اور اپنی اندرونی جنگوں سے نبرد آزما ہیں اور ان کو اختیار دینے والے اپنی جزوی بے اختیاری کا رونا رونے کے لئے لگاتار محض پریس کانفرنسز کرنے تک ہی محدود ہیں۔ ورنہ ماضی میں تو ہم نے تو وردی والوں کی وہ شان دیکھی ہے کہ انہیں پریس کانفرنسز کر کے اپنی ترجیحات اور پسندیدہ اقدامات بٹانا نہیں پڑتے تھے۔ نظام ان کے الفاظ سے زیادہ ان کی سوچ اور خواہشات و ترجیحات پڑھ کے بڑے بڑے اقدامات کر کے دھاک بٹھا دیا کرتا تھا اور دوسرے روز ہی پوری قوم کو احساس ہو جاتا تھا کہ ہاں طاقت ور یہی چاہتے ہیں لیکن اب تو گویا تماشا لگ گیا ہے۔ ادھر پریس کانفرنس ہوتی ہے کہ فوج کو برا بھلا کہنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور ساتھ ہی اس پریس کانفرنس پر ہوٹنگ شروع ہو جاتی ہے، طرح طرح سے مذاق اڑایا جاتا ہے اور ٹرولز دندناتے رہتے ہیں۔ ٹرولز تو دندناتے بعد میں نظر آتے ہیں۔ اسمبلی میں بھیجے گئے اپوزیشن لیڈران ہی پریس کانفرنس ہوتے ہی اسے ناکام کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ سیاسی حکومت کی ناکامی ہے اور انہوں نے بطور وزیر خزانہ میڈیا سے گفتگو کی ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی ہیڈ آفس اسلام آباد پر پولیس کی آج کی ریڈ ہمارے ممبران اسمبلی کے بیان حلفی ہتھیانے کا بہانہ تھا، ہماری ایجنسیز سے برداشت نہیں ہو رہا کہ پی ٹی آئی کو یہ نشستیں دی جا رہی ہیں حالانکہ ملک بھر کے ماہرین قانون اس فیصلے کو ذاتی خواہشات کا پلندہ قرار دے چکے ہیں۔ بہرحال عمر ایوب نے کہا کہ ہمارے ممبران اسمبلی ہر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیسز چل رہے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ اب بھی سگریٹ، ڈیزل اور دیگر اشیا کی سمگلنگ ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی سمگلنگ اور دیگر جرائم کا ذکر کیا ہے اور سیاسی حکومتوں کی نالائقی سے پردہ اٹھایا ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل نے سوال اٹھایا کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے بارڈرز پر سممگلنگ کون کروا رہا ہے؟ کیا بارڈر پر پٹواری ہیں جو سمگلنگ کروا رہے ہیں، اس کے لئے تو ہمارے پاس وسائل ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو بتانا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل 7کے تحت ریاست کا احترام کریں، تمام ادارے بشمول فوج آرٹیکل7کے تحت ریاست کے ماتحت ہوتے ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی ار کی پریس کانفرنس سیاسی حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے عراق، لیبیا اور شام کی مثالیں دیں کہ وہاں حالات خراب ہیں، عمر ایوب نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بطور فوج کے ترجمان کے نہیں بلکہ فنانس منسٹر کے طور پر پریس کانفرنس کی، وہ پریس کانفرنس سے پہلے وزیراعظم ہاس سے بے نامی اکانٹس کے بارے میں پوچھ لیتے، جس کے لئے ایان علی منی لانڈرنگ کرتی تھی اور اس میں نام آصف زرداری کا آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی سمگلنگ پاکستان میں عروج پر ہے یہ کون لوگ کر رہے ہیں انہیں سامنے لایا جائے۔ انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ مراد سعید چھپا ہوا ہے کیونکہ اس نے دہشت گردی کرنے والوں کی نشاندہی کی تھی حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ مراد سعید نے اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کی جس کی وجہ سے وہ اداروں کو مطلوب ہے، عمر ایوب نے کہا کہ ڈی جی کہتے ہیں کہ حکومت نے امپورٹس روکی تو سمگلنگ میں اضافہ ہوا، سمگلنگ کے تحت مہنگی گاڑیاں اور دیگر چیزیں لائی گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائبرڈ نظام اس ملک میں مزید نہیں چل سکتا۔ عمر ایوب کو یاد ہونا چاہئے کہ ان کی پونے چار سالہ حکومت بھی ہائبرڈ نظام کے تحت چل رہی تھی۔
حالیہ پریس کانفرنس اس حوالے سے بھی منفرد تھی کہ اس میں اصل رونا یہ رویا گیا کہ سیاسی حکومتیں بے عملی کا شکار ہیں اور اس نکمے پن کے بعد ناکامی پر بھی سیاسی بیانیہ بنا لیا جاتا ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ جو جو اشارے اس پریس کانفرنس میں دیئے گئے ہیں ان پر ذرا برابر بھی کام نہیں ہو گا کیونکہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ فوج جس حکومت سے کام لینا چاہتی ہے وہ خود انتشار اور دو رخی کا شکار ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب مسلم لیگ ن کی جانب سے گزشتہ دنوں پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کی گئی تو اس کی حکومت میں اتحادی پیپلز پارٹی کے پیٹ میں ہی سیاست و جمہوریت کے مروڑ اٹھنے لگے اور کہا گیا کہ یہ سیاسی عمل کو روکنے کی کوشش ہے حالانکہ یہ پیپلز پارٹی والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتشاری ٹولے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ نتیجتاً بات وہیں کی وہیں رک گئی۔ یعنی جب بات اس انتشاری ٹولے کے خلاف اقدامات کی ہوتی ہے تو جمہوریت کے اصول یاد آ جاتے ہیں اور جب کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو سانحہ نو مئی یاد آ جاتا ہے اور جذبہ حب الوطنی ٹھاٹھے مارنے لگتا ہے۔ اس سب پر ستم یہ کہ فوج جیسے منظم ادارے کے ترجمان بھی پریس کانفرنسز تو کر دیتے ہیں مگر دہشت گردوں خاص طور پر ڈیجیٹل دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کی ابتدا نہیں کرتے۔ یہ دہشت گرد وہ ہیں جن کے متعلق پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے سوموار کے دن ایک پریس کانفرنس میں فوج کے ادارے اور اس کی قیادت پر مبینہ فیک نیوز کی مدد سے تنقید کرنے والوں کو ’’ ڈیجیٹل دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان افراد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔ شدت پسندوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں کا ہدف فوج ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گرد فوج، فوجی قیادت، فوج اور عوام کے رشتے کو کمزور کرنے کے لئے فیک نیوز کی بنیاد پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ جس طرح ایک دہشت گرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دہشت گرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے معاشرے میں اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ واضح رہے کہ پاک فوج کی جانب سے ڈیجیٹل دہشتگردی کی اصطلاح اس سے قبل رواں برس مئی میں کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی استعمال کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی، بداعتمادی پھیلانا اور قومی اداروں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کرنا ہے۔ ایسے میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کی تعریف کیا ہے اور کس بنیاد پر کسی شخص کو ڈیجیٹل دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ ڈوروتھی ڈیننگ ایک مشہور امریکی محقق ہیں جو سائبر سکیورٹی امور پر مہارت رکھتی ہیں۔ وہ سائبر ٹیرر ازم کی تعریف کچھ یوں پیش کرتی ہیں کہ سیاسی، معاشرتی مقاصد کے حصول کے لئے کمپیوٹرز یا ان سے منسلک نیٹ ورک پر کسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیے گئے حملے سائبر ٹیررازم کہلاتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایک بے بس قسم کی سول حکومت کے بھروسے پر ہر بار ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنسز تو کر دی جاتی ہیں حب الوطنی اور تعمیر قوم و وطن کی خاطر تجاویز بھی دی جاتی ہیں سخت ترین اقدامات کر کے مثبت نتائج کے حصول کی امید تو دلا دی جاتی ہے مگر ہر پریس کانفرنس کے فوری بعد نہ صرف تنقید اور ہلڑ بازی جاری رہتی ہے بلکہ سول حکومتوں کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگتی اور عدالتوں سے بھی انہی ڈیجیٹل دہشت گردوں کو ریلیف ملتے رہتے ہیں اور وہ پھر سے قوم اور معصوم نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی ڈھیلی ڈھالی پریس کانفرنسز اور خالی خولی کارروائیوں سے بھلا یہ لوگ راہ راست پر آ سکتے ہیں جن کو امریکہ سے لے طالبان تک اور فوج کے اندر سے بعض عناصر سے لے کر عدلیہ تک کے بعض عناصر کی پشت پناہی، مدد اور تعاون حاصل ہو اور اس نوعیت کی پریس کانفرنسز کے بعد بھی یہ سلسلے چلتے رہیں۔





