Column

علم

علیشبا بگٹی

پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا۔ کہ تاجر جس ملک میں تجارت کرنے جاتا۔ سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ سے ملاقات کرتا۔ اپنا سارا سامان تجارت دکھاتا اور اس کی خوبیوں و انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد پہنچنے کے بعد بادشاہ کے دربار میں پیش کردیا گیا۔ تاجر نے بادشاہ کے حضور تحائف پیش کیے۔ پھر مال تجارت نکالا اور ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرتے ہوئے دکھانے لگا۔ بادشاہ نے سامان دیکھنے کے بعد کہا۔ بہت خوب۔ تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں۔ لیکن یہ بتائو کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایان شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے کہا۔ ہاں ایک چیز تھی جو میں خرید نہیں سکا۔ بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی ؟ تاجر بولا۔ جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو مع سامان و سواری اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ جنگلوں، سمندروں، پہاڑوں، صحراہوں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا۔ مگر سب نے یہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے۔ جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔ یوں ہی مہینوں بیت گئے۔ ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے۔ لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کرلی۔ کہ ایسا موتی مل جائے۔ لیکن یہ نہ ملا، سو اس نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر اُداس سا منہ لے کے جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا۔ کہ اسی لمحے اُسے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا۔ مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔ ارے نوجوان۔ ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟ تو مدتوں کا تھکا ہوا اداس سا مسافر معلوم ہوتا ہے۔ بتا میں تیری کیا مدد کروں؟ وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ نہیں ملا۔ پری بولی۔ بھلے آدمی۔۔۔ وہ موتی دراصل ’’ علم‘‘ کا موتی ہے۔ اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ گھٹتا نہیں ہے۔ یہ نایاب موتی ہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے۔ وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے۔ جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے ۔۔۔ وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس کی باتوں کا قائل ہوگیا۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اپنی کامیابی کے گیت گاتا ہوا اپنے ملک روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیاکہ صرف علم ہی وہ موتی ہے۔ جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ جس کے پاس علم کا یہ زیور ہوتا ہے۔ اس پہ سجتا ہے۔ حتیٰ کہ علم کے اس موتی کی روشنی میں ہی انسان اس کائنات اور اُس کے خالق و مالک تک رسائی حاصل کرتا ہے۔۔ علم سے انسان کائنات کی وسعتوں سے لیکر خلیہ و ایٹم کے ذروں تک کے بارے میں جان سکتا ہے۔ علم انسانی ترقیوں کا آغاز ہے۔ مذہبی اور روحانی ارتقا کے لئے علم لازمی ہے۔ فکری ارتقا کا عمل بھی علم کے ذریعہ جاری ہوتا ہے۔ علم کے بغیر خدا کی معرفت نہیں ہو سکتی۔ اسلئے علم سیکھنے کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ علم کی دو قسمیں ہیں، دینی علوم اور دنیاوی علوم۔۔۔ علم۔ دین کا ہو یا دنیا کے کسی شعبے کا، وہ بہرحال انسانیت کے لیے تمغہ فضلیت اور طرہ امتیاز ہے۔ بشرطیکہ علم انسان کی بہتری کے لئے استعمال ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے علم کو تین درجوں پر منقسم کیا ہے یعنی علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔۔۔۔

مثلاً ایک شخص دور سے کسی جگہ بہت سا دُھواں دیکھے اور دھوئیں سے ذہن منتقل ہوکر آگ کی طرف چلا جائے اور آگ کے وجود کا یقین کرے اور اس خیال سے کہ دھوئیں اور آگ میں ایک تعلق لاینفک ہے۔ جہاں دھواں ہوگا ضرور ہے کہ آگ بھی ہو۔ پس اس علم کا نام علم الیقین ہے۔۔۔۔۔ اور پھر جب آگ کے شعلے دیکھ لے تو اس علم کا نام عین الیقین ہے۔۔۔۔۔ اور جب اس آگ میں آپ ہی داخل ہو جائے تو اس علم کا نام حق الیقین ہے۔۔۔۔ اب اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: جہنم کے وجود کا علم الیقین تو اسی دنیا میں ہو سکتا ہے۔ پھر عالم برزخ میں عین الیقین حاصل ہوگا۔ اور عالم حشر میں وہی علم حق الیقین کے کامل مرتبہ تک پہنچے گا۔
علم کی کئی شعبے ہیں۔ جیسے جغرافیہ، فلکیات، فلسفہ، سائنس، منطق، تاریخ، ریاضی۔
نبیؐ کو سب سے پہلے اسی کی تعلیم دی گئی۔ خدا کی طرف سے پہلی وحی جو آپ ٔ کو پڑھنے اور علم کے بارے آئی۔ سورۃ علق میں رب نے نبیؐ سے فرمایا۔۔ ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا۔ جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ قرآن پاک میں یہ دعا بھی سکھائی گئی۔ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا۔۔۔ ہاں یہ دعا کر کہ۔ ’’ پروردگار میرا علم بڑھا‘‘۔ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان فرما رہے ہیں۔ انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں‘‘ ۔ اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ:’’ بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں یعنی عبادت میں گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں ؟ بتائو تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ ‘‘۔
علم ایک بے پایاں سمندر ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سکھاتا ہے۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے: انبیاء کی میراث نہ درہم تھا نہ دینار، بلکہ ان کی میراث علم تھی۔ پس جس نے علم حاصل کیا۔ اس نے بہت کچھ پالیا۔
حضورؐ نے فرمایا ۔۔’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے‘‘۔

جواب دیں

Back to top button