ملزم اور مجرم کا فرق

تحریر : روشن لعل
اس وقت دنیا میں کچھ ایسے مہذب ملک بھی ہیں جہاں قانون کے تحت آجروں کو انٹرویو کے لیے بلائے گئے ممکنہ ملازم سے یہ سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں ہے کہ ’’ کیا وہ کبھی کسی الزام کے تحت گرفتار ہوا، کیا عدالت میں اس پر عائد کردہ کوئی الزام سچ ثابت ہوا، اوراگر الزام سچ ثابت ہونے پر اسے قصوروار ٹھہرایا گیا تو کیا سزا جرمانے کی حد تک تھی یا اسے جیل میں قید کی سزا بھگتنا پڑی‘‘۔ اس طرح کی قانون سازی کا ایک مقصد یہ ہے کہ ملزم اور مجرم کو یکساں تصور نہیں کیا جانا چاہیے، دوسرا یہ کہ اگر کوئی ملزم خود پر عائد الزام کو عدالت میں غلط ثابت کر کے بری ہو چکا تو اسے ملازم رکھنے والے کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ ممکنہ ملازم پر کبھی کوئی الزام عائد ہوا یا نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر عائد الزام درست ثابت ہونے پر عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا بھگت چکا ہے تو یہی سمجھا جائے کہ ملکی قانون کے ساتھ اس کا حساب بے باک ہو چکا لہذا آئندہ زندگی گزارنے کے لیے اسے درکار روزگار کی فراہمی کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی اس پر عائد کوئی الزام درست ثابت ہوا یا نہیں ہوا تھا۔
21ویں صدی کے تیسرے عشرے کے دوران، جہاں دنیا کے کچھ ممالک میں ملزموں اور مجرموں کے متعلق اس حد تک حساسیت پیدا ہو چکی ہے کہ ملزم کو ہر حال میں معصوم تصور کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کسی مجرم کے سزا یافتہ ہونے کے اثرات اس کی باقی ماندہ زندگی پر مرتب نہ ہوں، وہاں ہو سکتا ہے کہ وطن عزیز میں، ملزم اور مجرم کی حیثیت کے فرق کا بیان کچھ لوگوں کو عجیب اور غیر ضروری محسوس ہو رہا ہو۔ موجودہ تبدیل شدہ دور میں ملزم اور مجرم کے فرق کا بیان عجیب نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اس امر کو عجیب تصور کیا جانا چاہیے کہ ترقی یافتہ دور میں بھی یہاں ملزم اور مجرم کا فرق بیان کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے پیش آرہی ہے کیونکہ یہاں ہیت مقتدرہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو محض الزام کی بنیاد پر ناپسندیدہ لوگوں کو ایسی سزا سے ہمکنار کرانا چاہتے ہیں جو الزام سچ ثابت ہونے پر بھی نہ دی جاسکتی ہو ۔ دنیا میں جہاں صدیوں کے تجربات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا چکا ہے کہ سخت سے سخت سزائوں سے نہیں صرف معاشی و معاشرتی اصلاحات کے ذریعے جرائم کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے وہاں حکمرانی اگر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو جرائم کے متعلق محض اپنے قیاس کی وجہ سے لوگوں کو سخت سے سخت سزائیں دینا چاہتے ہوں تو وہاں ضروری ہو جاتا ہے کہ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ تہذیب کے ارتقائی سفر میں کون ہمیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وطن عزیز میں مختلف حکمران گروہوں نے، شروع دن سی عوام کو گمراہ کرنے کے مقصد کے تحت یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کسی پر کوئی الزام عائد ہو جانا ہی اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ اس سے بے پناہ نفرت کی جائے، جس حد تک ممکن ہو اس کی کردار کشی کی جائے ، اسے ذہنی اذیت پہنچانے میں کوئی کسر روا نہ رکھی جائے ، اسے تمام واجب قانونی حقوق سے محروم رکھنے اور سزا کا حقدار ٹھہرانے کے لیے جس حد تک ممکن ہو پراپیگنڈا کیا جائے۔ حیران کن طور پر میڈیا کا کوئی نہ کوئی خاص گروہ اس قسم کی جہالت پھیلانے میں مدعی سست گواہ چست کے مصداق، وقت کے حکمرانوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا رہا۔ میڈیا کے اسطرح کے کردار کی وجہ سی ، مخصوص حکمران، ہر دور میں اپنا مکروہ پراپیگنڈا کرنے میں کامیاب رہے کیونکہ یہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شعوری طور پر ملزم اور مجرم کے فرق سے آگاہ ہیں۔ یہاں لوگ بری طرح سے اس وہم کا شکار ہیں کہ جب کسی پر کوئی الزام عائد ہو جائے تو اس مطلب یہی ہے کہ وہ قصور وار ہے۔ جب بھی کسی ملزم کو کسی الزام کے تحت پولیس یا کوئی دوسرا ادارہ حراست میں لیتا ہے تو اس کا مقصد تفتیش کے
علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ پولیس حراست کا مطلب کسی جرم میں سزا کا آغاز ہر گز نہیں ہے۔ قانون کی نظر میں پولیس حراست میں موجود ملزم کے عدالت کی طرف سے باعزت بری ہونے یا سزا کا مستوجب ٹھہرائے جانے کا یکساں امکان ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک ملزمان کے سزا پانے کی بجائے بری ہونے کے امکان کو اس لیے زیادہ تصور کیا جانا چاہیے کیونکہ عدالتوں کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ کسی ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیں مگر شک کی بنیاد پر وہ کسی ملزم کو سزا دینے کی مجاز ہر گز نہیں ہیں۔ اس لیے چاہے کوئی ملزم پولیس حراست میں ہو یا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں، اسے اس وقت تک معصوم ہی تصور کیا جانا چاہیے جب تک عدالت کی طرف سے اسے باقاعدہ سزا نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں بعض ماہرین قانون تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی ملزم کو اس وقت تک معصوم تصور کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس کی اپیل کا آخری حق بھی ختم نہ ہوجائے اور ملک کی آخری عدالت اس کی سزا کا حتمی فیصلہ نہ سنادے۔ یاد رہے کہ اگر کسی مسلسل زیر حراست ملزم کو جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا ہو جائے تو اس کی سزا میں زیر حراست رکھا جانے والا عرصہ بھی شامل ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی مسلسل زیر حراست ملزم بری ہو جائے تواس کے زیر حراست رکھے جانے والے دورانیے کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ یہاں تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ لوگوں کو ایک دہائی کے قریب عرصہ تک زیر حراست رکھا گیا مگر عدالت میں ان پر کوئی الزام سچ ثابت نہ کیا جاسکا۔
لوگوں کے آئینی ، قانونی اور اخلاقی حقوق پامال کرنے کے لیے یہاں ملزم اور مجرم کی حیثیت کو جس طرح سے گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ کس دھڑلے سے کیا جارہا ہے یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے۔ عام لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی کی آشیر باد سے یا آشیر باد کے بغیر ہو رہا ہے۔ عام لوگوں کو یہ تشویش ضرور ہونی چاہیے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں غلط تو نہیں ہے۔ تہذیبی ارتقا کے برعکس سفر کو کسی صورت درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں بحیثیت مجموعی نہ صرف ذاتی طور پر خود کو مہذب بنانا ہوگا بلکہ ایک ایسے مہذب معاشرے کی تشکیل کرنا ہوگی جو ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ ہو۔ مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے عام لوگوں کے مہذب ہونے سے زیادہ ضروری ہے کہ حکمران اور عدلیہ یکساں طور پر تہذیب یافتہ ہوں۔ عدلیہ اور حکمرانوں کو صرف اسی وقت مہذب تسلیم کیا جائے گا جب وہ تصادم سے گریز کرتے ہوئے خود کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھال کر آئینی حدود و قیود کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ یاد رہے کہ جب تک عدلیہ اور حکمران غیر مہذب رویے ترک نہیں کریں گے یہ معاشرہ مہذب نہیں بن سکے گا۔