امامان سیاست، عوام اور پی ٹی آئی

تحریر : عبد الحنان راجہ
افلاطون مثالی ریاست کے لیے فلسفی حکمران جبکہ ابو نصر فارابی پارسا حکمران کے قائل کہ پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل اسی سے ہی ممکن۔ ہم خوش نصیب کہ رائج جمہوریت میں ہمیں ایسے فلسفی میسر جو جرمنی و جاپان کی سرحدیں تک ملا دیتے ہیں۔ رہا معاملہ پارسائی کا !تو حالیہ ہوں یا گزشتہ سبھی اس کے دعویدار بلکہ چند روز قبل ہی ایک مقبول سیاسی راہنما کو سند پارسائی عطا ہوئی ہے۔ عوام نے اس فیصلہ کو دل و جاں سے اسی طرح قبول کیا جیسے شریف فیملی کی منی لانڈرنگ اور پی پی پی قیادت کی کرپشن سے بریت کے فیصلوں کو، لہذا اب انہیں بھی بدعنوان یا خائن کہنا آئین سے روگردانی اور اس کی سزا آئین میں درج ہے۔ سو آپ بالجبر یقین کریں یا مصلحت کے تحت مانیں یہ آپ پر منحصر. مگر یہ امر خوش آئند کہ ہمارے نظام انصاف نے ہر دو فلسفیوں کی شرائط حکمرانی کو بطریق احسن پورا کرنے کے لیے اپنی مہارتیں صرف کیں۔ اب یہ ہماری خوش نصیبی کہ اہل پاکستان کو فلسفی بھی میسر ہیں اور پارسا بھی۔ شکر کہ اب کرپشن اور کردار والا جھگڑا تو ختم ہوا۔ سیاست کے کھیل کے تینوں کھلاڑی اب 62،63کی شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ فلسفیانہ تمہید طویل ہو گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ عوام پر مشق ستم جاری ہے اور چکی کی مشقت بھی۔ صاحبان اقتدار سے امیدیں اور غربت و افلاس کے ماروں کا دم دونوں ٹوٹ رہے ہیں۔ بجلی کی گرانی کے سبھی اسباب ایک ایک کر کے سامنے آ چکے مگر کوئی ذمہ داروں کا تعین اور ان کو نشان عبرت بنانے کو تیار نہیں ہاں البتہ عوام ضرور عہد عبرت میں جینے کا ڈھنگ سیکھ چکے ہیں۔ مہنگائی کا پکتا لاوا مختلف شکلوں میں پھٹا نظر آتا ہے، جیسے بنوں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد جھوٹ اور جھوٹی افواہوں کے سبب ابھرنے والی عوامی جذبات کا رخ کمال مہارت سے ریاست مخالف مہم کی طرف پھیر دیا گیا۔ مگر آج کے دن تک اس کو روکنے یا اس پر گرفت کی کوشش کی گئی اور نہ اس بارے عملی اقدامات۔ بات دعووں اور بیانات تک ہی محدود۔ بنوں واقعہ پر سوشل میڈیا مہم اس کی تازہ مثال۔ ایک مسئلہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے گود لیے جانے کے بعد جو بیانیہ بنایا تھا اس پر وہ اپنے دور اقتدار میں پورا نہ اترنے میں ناکام رہے اور بات قبر میں سکون پہ جا ٹھہری۔ پھر اس پر عدم اعتماد کا غم اور محبوب سے جدائی کا قلق دل پر ایسا لیا کہ 9مئی کر بیٹھے۔ حالانکہ پیار کی پینگیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے بھی جڑتی ٹوتی رہیں مگر محبوب کے روٹھنے رنج جیسا پی ٹی آئی نے منایا وہ اپنی مثال آپ۔ کہ محبوب سے سبھی رشتے، ناطے، عنایات و نوازشات پس پشت ڈال دیں۔ اب بے رخی انہیں تشدد پر مجبور کرتی ہے اور پرتشدد کارروائی اور جارحانہ بیانات کے بعد پھر کن انکھیوں سے اسی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ تعلق بننے اور ٹوٹنے کا عمل ہماری سیاسی تاریخ میں اچھنبا نہیں مگر اس درد کو جیسے پاکستان پیپلز پارٹی نے سہا اور جس تحمل، بردباری اور معاملہ فہمی کا ثبوت اس کی قیادت نے دیا وہ ان کی سیاسی پختگی و بالغ نظری کا ثبوت۔ انہوں نے اداروں کے خلاف طبل جنگ بجایا اور نہ پاکستان مخالف مذموم مہم چلا کر کارکنان کے جذبات ابھارے، مذاکرات کے دروازے کسی پر بند کیے اور نہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا یہی تو وجہ ہے کہ وہ محدود مینڈیٹ کے باوجود پورے طمطراق سے اقتدار کی راہداریوں پر قابض. ۔ ہاں البتہ ن لیگ نے حدود سے تجاوز کیا تو اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔ اب پی ٹی آئی کی ساری تو نہیں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور نچلے درجے کی قیادت و کارکنان جس راہ پر چل نکلے ہیں، لگتا یوں ہے کہ وہ کپتان کو سال ہا سال آرام اور پرسکون ماحول قید تنہائی کی صورت میں فراہم کرنے پر تلے ہیں۔ پی ٹی آئی اس وقت فکری انتشار کا شکار، ایک دھڑا جارحانہ تو دوسرا مذاکرات کا حامی۔ دونوں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد داد تحسین کے لیے قائد کی طرف دیکھتے ہیں۔ قائد بیرونی دنیا کے حالات سے عدم واقفیت کی بنا پر ایک کو تو کبھی دوسری سوچ کو داد دیتا ہے اور کتنے عرصہ سے معاملات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مذاکراتی ٹیم کے پاس مینڈیٹ نہیں تو مینڈیٹ والا مذاکرات کا حصہ نہیں۔ اب مولانا کے در دولت کا طواف کیا رنگ لاتا ہے کچھ خبر نہیں۔ ہمیں تو علم نہیں مگر واقفان حال بتاتے ہیں کہ مشترکہ دوستوں کی پس پردہ معاملات حل کرانے کی کوششیں قائد کے بے وقت بیان پر ڈھیر ہوتی رہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مذاکرات اور جارحانہ انداز اور تابڑ توڑ حملے ساتھ ساتھ ہیں. راہنما نظروں سے اوجھل ہوا تو کارکنان منزل سے بھٹک گئے، جس کے جی میں جو آتا ہے بلا جھجک کہہ ڈالتا ہے مگر کوئی پوچھنے والا بھی تو نہیں کہ جو سیاست اور مخالفت کے آداب سکھائے۔ چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی ان گھمبیر
حالات میں پارٹی کو دلدل سے نکال سکتے ہیں مگر لگتا ہے کہ کپتان ان پر اعتماد نہیں بے لگام کارکنان کسی بھی رہنما کے سنجیدہ اور معاملہ فہمی کے ایک بیان پر توپوں کا رخ ان کی طرف کر دیتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مقتدرہ پی ٹی آئی قیادت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں کہ پی ٹی آئی کم از کم دو بار مواقع گنوا بیٹھی ہے اس کے ساتھ 9مئی واقعہ کے بعد کارکنان ہی نہیں قیادت کے ایک گروپ کے رویوں میں تلخی اور مزاج میں چڑچڑا پن نمایاں ہوا یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ارسطو و افلاطون مذاکرات اور بات چیت کی سبھی کوششوں کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ چشم تصور میں وہ ابھی بھی طاقت میں اور انکے کے مخالفین قید میں۔ کارکنان خلا سے نیچے تازہ فضا میں آنے کو تیار نہیں سو اسی وجہ سے ابھی بھی انہیں زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہو سکا۔ اول درجہ کی قیادت لاپتہ، درجہ دوئم پر اعتبار نہیں اور کارکنان سوشل میڈیا پر جذبات کی آگ لگائے ہوئے ہیں۔ جو قائد بقول انکے اور ملک کے لیے پابند سلاسل ہے اس کے لیے کوئی گرفتار تو درکنار جاندار احتجاج کے لیے تیار نہیں۔ چوری کھانے والے مجنوں سوشل میڈیا کو ہی میدان جنگ بنائے بیٹھے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائد سوشل میڈیا میں قید نہیں اڈیالہ کی بند سلاخوں کے پیچھے ہے۔ کارکنان جب اپنے محبوب قائد کے لیے باہر نکلنے کو تیار نہیں تو مہربانو قریشی کے دکھ بھرے جذبات کس کھاتے میں، کہ کارکنان تو کارکنان مقامی قیادت تک نے آج تک اسیر وائس چیئرمین سے ملاقات کی زحمت تک نہ کی۔ سبھی شاہ محمود قریشی قطع تعلق کئے بیٹھے ہیں۔ بقول مہربانو وکلا کی ٹیمیں کپتان کے آگے نمبر بنانے اور اپنی سیاست چمکانے میں مصروف۔ اب کپتان کے بعد شاہ محمود قریشی سے بڑا لیڈر پارٹی میں کوئی ہے نہیں، اگر ان حال یہ ہے تو پھر باقی کیوں اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ کالم کھلاڑیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ہرگز نہیں صرف انکی آنکھیں کھولنے، حقائق سے پردہ اٹھانے اور شخصیت پرستی کے حصار سے نکالنے کے لیے ہے، کیونکہ بقول اقبالؒ
دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں عوام
سو کھلاڑیوں سے پیشگی معذرت





