آصف علی زرداری بھٹو مخالف کا تختہ مشق اور زرداری کا قلندرانہ کردار

تحریر : اطہر شریف
آصف علی زرداری اسی دن ملزم بن گیا تھا۔ جب 18دسمبر 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی تھی۔ بلاول ہائوس 21ستمبر 1988ء کو بلاول بھٹو کے پیدا ہونے کے فورا بعد آصف علی زرداری نے خرید لیا تھا۔ جب ابھی الیکشن نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آصف علی زرداری کے اوپر الزامات اقتدار میں آنے سے پہلے 2دسمبر 1988ء سے پہلے ہی لگنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نواز شریف نے لگنا شروع کئے تھے ۔ چینی کہاوت ہے سچ کے آنے تک جھوٹ پورے گائوں میں پھیل جاتاہے۔ ہٹلر کے دست راز گوبیلز کے مطابق جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہو۔ یہی کچھ نواز شریف نے کیا تھا۔ اب عمران نیازی اینڈ کو کر رہی ہے۔ آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پہلی دفعہ 10اکتوبر 1990ء کو گرفتار کیا گیا تھا اور فروری 1993ء کو رہائی ملی۔ دوسری دفعہ پانچ نومبر سن انیس سو چھیانوے کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
آصف علی زرداری پر قتل اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ مقدمات درج کئے گئے تھے۔ کچھ مقدمات میں وہ رہا ہوچکے ہیں جبکہ باقی مقدمات میں عدالتوں نی ان کی ضمانت منظور کی ہے۔ بی ایم ڈبلیو کار کیس کے نام سے مشہور مقدمے میں آصف علی زرداری کی ضمانت نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں اپیل دائر کی تھی۔ اس مقدمے میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کسی اور کے نام پر کار درآمد کی اور اس پر کم کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے کلیئرنس حاصل کی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے، جس میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس شاکراللہ جان بھی شامل تھے، دس لاکھ روپوں کے مچلکے داخل کرنے کے عوض ان کی ضمانت منظور کر لی۔ آصف علی زرداری کی وکالت بیرسٹر اعتزاز احسن، فاروق ایچ نائیک اور ڈاکٹر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کی جبکہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایڈووکیٹ ابراہیم ستی پیش ہوئے۔ دوران سماعت جب استغاثہ کے وکیل نے ضمانت کی مخالفت کی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب گاڑی درآمد کرنے والے شخص اور بعد میں خریدنے والے شخص سمیت کسی پر مقدمہ نہیں بنا تو کیا صرف زرداری پر مقدمہ بنانا بدنیتی پر مبنی نہیں ہے؟۔ استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے۔ استغاثہ کے مطابق دوسروں کے نام پر یہ گاڑی زرداری نے درآمد کی اور یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بلٹ پروف گاڑی ہی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف پچپن لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کی گئی جبکہ اس سے قومی خزانے کو ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ عدالت نے کہا کہ یہ مقدمہ اس وقت کیوں داخل ہوا جب درخواست گزار کی ضمانت منظور ہوئی؟ استغاثہ نے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے۔ وکیل صفائی اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کا موکل آٹھ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مختصر حکم سناتے ہوئے ضمانت منظور کرلی۔ زرداری کے وکیل بابر اعوان کے مطابق ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ جب بھی آصف زرداری کسی مقدمے میں ضمانت حاصل کرتے تو حکومت اسی روز نئے مقدمے میں ان کی گرفتاری ظاہر کر دیتی اور وہ رہا نہ ہو پاتے۔
آصف علی زرداری نے جیل اس بہادری سے کاٹی کہ نظریاتی مخالف مجید نظامی نے انہیں مرد حر کا خطاب دیا۔1996سے 2004تک وہ مسلسل جیل میں رہے اور رہا بھی تب ہوئے جب ان کے حق میں ہمدردی کی لہر بیدار ہو رہی تھی۔ آصف علی زرداری کی پہلی گرفتاری 10نومبر 1990سے 7فروری 1993تک تھی ۔ مدت گرفتاری 2سال 3ماہ 27دن تھی۔ دوسری مرتبہ گرفتاری 5نومبر 1996سے 22نومبر 2004تک تھی۔ مدت گرفتاری 8سال 17دن تھی۔ تیسری مرتبہ گرفتاری 10جون 2019سے 4فروری 2021تک تھی ۔ مدت گرفتاری 1سال 7ماہ 24دن تھی۔ کل مدت گرفتاری 12سال 8دن۔ پاکستان کے کسی بھی سیاست دان کی سب سے زیادہ طویل اور بے گناہ گرفتاری قید ہے۔ آصف علی زرداری کے طرز سیاست نے 2008کے انتخابات سے مذکورہ تبدیلی تک ملکی سیاسی نظام پر اپنے گہرے اثرات مرتب کر رکھے ہیں اور حالیہ تبدیلی میں ان کا کردار سب پر بھاری ہے۔ بے نظیر بھٹو سے آصف علی زرداری کی بجائے کسی اور کی بھی شادی ہو جاتی تو اس کا انجام آصف علی زرداری جیسا ہی ہوتا۔ پیپلز پارٹی کے نام نہاد ہمدرد بنتے ہوئے کہا جاتا ہے مفاہمت کی سیاست نے پیپلز پارٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے – اس سلسلے میں آصف علی زرداری کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ حقائق کے خلاف سب سے پہلے مفاہمت بیگم نصرت بھٹو نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران کی بھٹو کے دشمنوں ولی خان اصغر خان مفتی محمود کے ساتھ مل کر ایم آر ڈی کی 1980میں بنیاد رکھی اس وقت حالات کا جبر تھا۔ ڈریکولی مارشل لاء کا مقابلہ کرنے کے لیے ضیا کے خلاف تحریک چلانے کے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کو 1990میں نواز شریف اور اس کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے اصغر خان کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد بنانا پڑا اور نواز شریف اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف الیکشن لڑا۔
چارٹر آف ڈیموکریسی پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے 14مئی 2006کو لندن میں دستخط کیے تھے۔ یہ دستاویز پاکستان کی دو اہم سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کا اشارہ دیتی ہے، جس میں فوجی حکمرانی کے خاتمے کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ 1999کی پاکستانی فوجی بغاوت جس کی قیادت جنرل پرویز مشرف نے کی اور سویلین جمہوری حکمرانی کی بحالی۔14مئی 2006طویل انتظار کے بعد میثاق جمہوریت charter of democracy(CoD) کو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اتوار کی رات دیر گئے منظور کیا اور اس پر دستخط کیے گئے کئی گھنٹے کی شق بہ شق بحث کے بعدایف آئی اے کے سابق سربراہ رحمان ملک کی رہائش گاہ پر مذاکرات ہوئے۔
چارٹر دونوں جماعتوں سے آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے اور اقتدار میں آنے پر مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئین میں کی گئی تحریفات کو ختم کرنے کا عہد کرتا ہے۔ اصغر خان کی TIتحریک استقلال ان بانی جماعتوں میں سے ایک تھی، جس کی قیادت بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو اور سردار شیرباز خان مزاری نے کی تھی ، ضیاء الحق کی آہنی حکمرانی کے خلاف شروع کی گئی تحریک برائے بحالی جمہوریت (MRD)کے۔ ضیاء کے اقتدار کے عروج پر، اصغر خان نے ان کی مخالفت کی اور افغانستان کے کمیونسٹ صدر محمد نجیب اللہ سے ملنے کابل گئے۔ واپسی پر، انہوں نے نام نہاد جہاد پر تنقید کرتے ہوئے مضامین کا ایک سلسلہ لکھا جسے ضیا نے شروع کیا تھا ا اصغر خان نے 1990کے انتخابات پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے تحت بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر لڑے۔ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے خلاف 1990 کے انتخابات میں غیر قانونی طور پر من پسند سیاست دانوں کو رقوم کی تقسیم کے ذریعے مداخلت کرنے کا مشہور اصغر خان کیس، سیاست میں جرنیلوں کے کردار کے خلاف ان کی مسلسل لڑائی کی ایک اور جنگ تھی۔پاکستان میں تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی نے اُس دور میں سیاست اور سیاسی احتجاج کی روایت قائم کی جب وقت کے آمر نے ملک میں سیاست کو ختم کر نے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔ اگر جنرل محمد ضیاء الحق کا مارشل لا اس سے قبل کی ایوب خانی اور یحییٰ خانی آمریتوں کا تواتر تھا تو ایم آر ڈی اُس جمہوری جدوجہد کا تسلسل تھی جو پاکستانی عوام نے اس سوچ کے خلاف برپا کی جو ملک کو فوجی تسلط اور مذہبی رجعت میں جکڑ دینا چاہتی تھی۔ جنرل ضیا کے قبیح عزائم ان کے اُس بیان سے کھل کر سامنے آئے جو انہوں نے 1978میں تہران میں دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئین کیا ہے، چند ورقے ؟ اگر میں اسے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دوں اور ایک نیا نظام نافذ کردوں تو سب کو وہ ماننا پڑے گا۔ طاقت کے نشے میں جنرل ضیا نے مزید کہا تھا کہ سیاستدان بشمول سب جغادری لیڈر ( یعنی بھٹو صاحب ) پھر بھی دُم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے ۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ بھٹو صاحب جان سے گزر گئے مگر انہوں نے ضیا کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔ ثانیاً سیاستدان اس بات سے آگاہ ہو گئے تھے کہ منصوبہ سیاست کو پاک کرنے کا نہیں بلکہ پاکستان کو سیاست ہی سے پاک کرنے کا ہے۔ جنرل ضیا عوام سے کیے گئے وعدوں سے مکرتے رہے۔ نوے دن میں انتخابات کا عہد بارہا توڑا گیا۔ ایسے میں بیگم نصرت بھٹو اور نیشنل ڈیموکریٹک ( این ڈی پی) کے صدر سردار شیر باز خان مزاری کے درمیان سنجیدہ مشاورت شروع ہوئی۔ سردار مزاری اس سے قبل خان عبدل ولی خان اور مولانا مُفتی محمود سے بھی صلاح مشورہ کر چکے تھے تاکہ سیاسی قوتوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکے۔
بھٹو صاحب اور بیشتر سیاسی رہنما بالخصوص نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں میں جو سیاسی اور ذاتی چپقلش رہی تھی اس کی وجہ سے یہ بظاہر ایک ناممکن نہیں تو بیحد مشکل کوشش تھی۔ بہرحال سردار مزاری کی مساعی بارآور ہوئیں اور چار بنیادی نکات بشمول 1973کے آئین کی اپنی اصلی شکل میں بحالی کے لیے جدوجہد کرنے پر ان کا اور بیگم نصر ت بھٹو کا اتفاق ہو گیا۔ اور جیسا کہ سردار مزاری نے خود لکھا ہے 5فروری 1981کو ایم آر ڈی وجود میں آ گئی۔ دیگر جماعتوں نے فوراً اس کی توثیق کر دی اور پہلے ہی روز کُل 9پارٹیاں تحریک کا حصہ بنیں۔
ایم آر ڈی کی اولین کامیابی گویا پی پی پی کی اس سیاسی تنہائی کا خاتمہ تھا جو نہ صرف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے لیے خطرناک تھی بلکہ جس کے سیاسی دھارے سے باہر رہنے کی صورت میں خود سیاسی عمل کے لیے مہلک تھی۔
ایم آر دی نے بہت اتار چڑھائو دیکھے مگر سیاستدانوں کے مل کر کام کرنے کی جو روایت 1981میں پڑی وہ بعد کی مخلوط حکومتوں میں بہتر آشکارا ہوئی۔ جنرل ضیاء کی موت کے بعد ہونے والے پہلے انتخاب گو ایم آر ڈی ( MRD) کی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم سے نہیں لڑا مگر اس کے نتیجے میں بننے والی مرکزی اور صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا ( سابقہ صوبہ سرحد) کی حکومتیں مخلوط تھیں۔ اس سیاسی تدبر اور برد باری کی بہترین مثال پی پی پی اور اے این پی کی 2008 تا2012 کی مخلوط حکومت تھی۔ ایم آر ڈی سے قبل شاید یہ تصور بھی نہ کیا جا سکتا ہو کہ نیپ اور این ڈی پی کی وارث جماعت اے این پی اور پی پی پی کبھی اکٹھے حکومت کریں گی۔ یہ سیاسی پختگی اس اساس پر قائم ہوئی جو 1981ء میں ایم آر ڈی نے فراہم کی۔ اپنے قیام کے پہلے دو سال میں ایم آر ڈی متفرق مسائل کا شکار رہی اور کوشش کے باوجود کسی مربوط حکمت عملی کے تحت تحریک کو آگے بڑھانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ حبیب جالب نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا۔1983ء کی تحریک رہنمائوں کی نہیں بلکہ کارکنوں کی تحریک تھی جسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا۔
وقت کا فرعون بیشک نہ گیا مگر وہ یہ ضرور جان گیا کہ اس کا تخت محفوظ نہیں کیونکہ عوام کی خواہشات اور اس کی سوچ میں جو بعدالمشرقین تھا وہ اس کو طاقت کے ذریعے بھی نہیں پاٹ سکا تھا۔ اس تحریک کا سب سے بڑا ثمر یہ تھا کہ بیشتر سیاسی قائدین اس بات پر متفق تھے اور متفق رہے کہ ضیا کے مختلف اقدامات کو سیاسی قبولیت اور جواز نہیں دینا ہے چاہے وہ 1984کا بدنام زمانہ استصواب ہو یا 1985کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات۔ اگر ایک لفظ میں جنرل ضیا الحق کے دور کو سمیٹا جائے تو وہ ہے: حبس۔
اے آر ڈی کو جنرل مشرف کی قیادت میں 1999کی فوجی بغاوت کے بعد پاکستان میں سویلین حکومت کی واپسی کے لیے مہم چلانے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس میں ایک درجن سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کی اطلاع ہے۔ اتحاد کا خیال تھا کہ پاکستانی عوام اپنے خیالات اور نظریات کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں کو آزادانہ طور پر منتخب کرنے کے موقع سے کم کے مستحق نہیں ہیں۔3دسمبر 2000کو کثیر الجماعتی اتحاد برائے بحالی جمہوریت (ARD)کی تشکیل نے فوجی حکمرانی کے لیے پہلا بڑا چیلنج پیش کیا اور سال کے پہلے مہینوں میں مشرف انتظامیہ کا بنیادی ہدف رہا۔ یہ اتحاد ملک کی دو بڑی سیاسی تنظیموں ۔ معزول وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ اور خود ساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک ساتھ لایا گیا ہے۔ فوری انتخابات کے ذریعے پارلیمانی حکومت کی بحالی کا عزم ظاہر کیا۔
پاکستان کے کسی سیاستدان کا طویل ترین جیل کاٹنا وہ بھی بیگناہ ۔ اپنی جوانی کے شاندار سال جیل میں کاٹنا بچوں کے بغیر زندگی گزارنا ان کے بچپن سے بہت دور رہنا، اپنی رفیقہ حیات بے نظیر بھٹو سے بہت دور آسان نہیں تھا۔ اتنی زیادہ سختی زندگی میں زہر بھر دیتی ہے تلخ کر دیتی ہے پھر رفیقہ حیات بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسا بڑا صدمہ انسان کے اعصاب شل کر دیتا ہے۔ اس وقت پورا پاکستان جل رہا تھا۔ اس عظیم انسان نے اس وقت پاکستان کھپے کا نعرہ لگا اس بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ اگر اس دن آصف علی زرداری پاکستان کھپے کا نعرہ نہ لگاتا ہے تو سندھ تو خدانخواستہ پاکستان سے علیحدہ ہو جانے کو تیار تھا۔ ایک طرف آصف علی زرداری کا کردار ہے دوسری طرف نام نہاد محب وطن عمران خان کا کردار اقتدار سے علیحدگی نے اس کو پاگل کر دیا ہے اور پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کر دینا چاہتا ہے۔ آصف زرداری نے بی بی سے شادی کے وقت کہا تھا آئندہ ریاستی جبر آصف زرداری برداشت کرے گا آپ پر آنچ نہیں آنے دے گا تب سے آج تک زرداری ریاستی جبر کا بامردی سے مقابلہ کر رہا ہے اور وفا کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ سی پیک کے بانی آصف علی زرداری آج دوبارہ صدر پاکستان بن کر پاکستان کو ایک نئی سوچ اور جہت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔







