پاکستان اور ترک ممالک کی تنظیم او ٹی ایس کی رکنیت

محمد اعجاز الحق
موجودہ حالات میں ملکی قیادت کو علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی حالیہ پیش رفت اور تبدیلی کی طرف گہری نگاہ اور فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے پالیسی ساز ادارے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عسکری حکمت عملی کو نئے حالیہ تناظر میں تشکیل دیں عالمی سطح پر ہونے والی اہم پیش رفت کسی سے پوشیدہ نہیں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل فلسطین تنازع نے پوری دنیا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، دو بڑی طاقتوں روسی اور چینی صدور میں ہونے والی ملاقات کے بعد اہم فیصلے سامنے آرہے ہیں، افغانستان میں طالبان حکومت کا پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے معاملے پر عدم تعاون اور تصادم کی طرف بڑھنا بھی کوئی معمولی اقدام نہیں، آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس ہونے وا لے اقدامات سے نئی سمت سامنے آرہی ہے ایران میں ترک نژاد ڈاکٹر مسعود کا صدر منتخب ہونا بھی ایک تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
ان اہم پیش رفت کے بعد پاکستان کو خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کیلئے کسی دوست ملک کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اس سلسلہ میں ہمارا دیر ینہ دوست ترکیہ پاکستان کے ساتھ اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ترکیہ کا علاقائی اور عالمی سیاست میں کردار بھی مسلمہ ہے اور دنیا بھر کے ترک بھی اس بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ترکیہ کی حمایت سے پاکستان کو ترک ممالک کی تنظیم او ٹی ایس ( آرگنائزیشن آف ترک اسٹیٹس، ترکیہ، آذربائیجا ن،قازقستان،کرغستان،ازبکستان) میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے کیلئے کوشش کرنا ہوگی کیونکہ ترک ممالک کی تنظیم اپنی نشاۃ ثانیہ کی طرف اہم پیش رفت کر رہی ہے، ’’ توران‘‘ کا احیاء بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، ’’ توران‘‘ میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں جہاں ترک قبائل آباد رہے ہیں، خواہ وہ اب کسی بھی ملک کا حصہ ہوں، ترک قبائل کی باقیات وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں بھی موجود ہیں دراصل ’’ توران‘‘ کی اصطلاح کسی جغرافیائی یا علاقائی اتحاد کا نام نہیں بلکہ ترک قبائلی اتحاد کو ’’ توران‘‘ کا نام دیا گیا ہے’’ توران‘‘ کے اہم مقاصد میں ترک ثقافت اور روایات کا احیاء سر فہرست ہے۔
ترک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں بسنے والی ہزارہ قبائل کا تعلق بھی ترک نسل سے ہے، پاکستا ن اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں کئی اہم قدریں مشترک ہیں جن میں مذہب اسلام، قبائلی نظام اور تہذیب و ثقافت شامل ہیں ترکستان کو بھی’’ توران‘‘ میں شامل کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا شمالی پہاڑی سلسلہ بھی گریٹر ’’ توران‘‘ میں شامل ہے توران کی فہرست میں خوارزم، بلخ و بخارا، شہر سبز، حصار، کوکند،درواز، کراتگین، قندوز، کافرستان، چترال، گلگت، سکردو اور قازقستان کاعلاقہ شمالی میدان شامل ہیں۔
’’ توران‘‘ کا نظریہ ترک ممالک کی تنظیم او ٹی ایس کی اختراع ہے جس کی قیادت ترکیہ کر رہا ہے، ترکمانستان اور ہنگری کو اس تنظیم نے مبصر کا درجہ دیا ہوا ہے جبکہ تاجکستان کو ترک ممالک کی تنظیم نے ابھی تک رکنیت نہیں دی، پاکستان کو ترک ممالک کی تنظیم میں پہلے مبصر کا درجہ حاصل کرنے کیلئے فوری اقدامات کر نا چاہیں جس کے پاکستان کو بے شمار فوائد حاصل ہونگے اس اقدام سے پاکستان گریٹر توران تجارتی راہداری کا حصہ بھی بن سکے گا جس سے اس کے توران ممالک سے تجارتی روابط میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اس کی اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا خطے میں پاکستان کے سیاسی اور سٹریٹیجک اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا اور پاکستانی تاجروں کو اقتصادی شراکت داری کے مواقع میسر آئیں گے جس کے ذریعہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملک میں راغب کیا جا سکے گا ان اقدامات سے اقتصادی ترقی کاایک نیا باب کھلے گا، پاکستان کو ترک ممالک کی تنظیم کے 5رکن ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کے مواقع میسر آئیں گے جس سے پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی تشکیل پائے گی یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں اس وقت سرحد پار سے ہونی والی علاقائی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، موجودہ صورتحال میں ہمارا ملک پاک افغان تجارت سے بھی خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کر پا رہا جس کی اہم وجہ علاقائی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے۔ ’’ توران ‘‘ میں مبصر کی حیثیت سے شرکت بعد ہمیں کسی حد تک ان چیلنجز سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مڈل اقتصادی راہداری ( جنوب مشرقی ایشیا،چین سے یورپ براستہ قازقستان،آذربائیجان، جارجیا اور ترکیہ)، عراق کے ترقیاتی منصوبوں اور سی پیک کی ترک ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک تک توسیعی پراجیکٹس سے فائدہ اٹھا سکے گا ۔
پاکستان کے عظیم تر مفاد میں ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ایسی حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی جس سے ہمارے روابط نہ صرف توران تنظیم او ٹی ایس سے فروغ پائیں بلکہ اس سے آگے بڑھتے اس کے رکن ممالک سے بھی دوستانہ تجارتی تعلقات بھی استوار ہوں اس سلسلہ میں پاکستان پہلا قدم یہ اٹھانا ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو اس تنظیم او ٹی ایس کے مبصر کا درجہ حاصل کر نے کیلے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے جس کو بعد اپنے مبصر اسٹیٹس کو مستقل رکنیت میں تبدیل کرائے اگر پاکستان ترک ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک ( ترکیہ، آذر بائیجان، قازقستان، کرغستان،ازبکستان) اقتصادی ترقی کیلئے متحد ہوجائیں اس سے علاقائی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی یہ اقتصادی ترقی کا ایک منفرد اتحاد ہوگا جس کی تقلید دیگر ممالک بھی کریں گے جس سے برف پگھلے گی اور اقتصادی ترقی میں طاری جمود کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔







