ColumnRoshan Lal

انصاف کا نیا سورج ؟

روشن لعل
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص سیٹوں کا حق دار قرار دیا۔۔۔ کچھ دوستوں نے کہا وہ دیکھو وطن عزیز میں انصاف کا نیا سورج طلوع ہورہا ہے۔۔۔۔ دوستوں نے جو کچھ دکھانے کی کوشش کی۔۔۔۔ وہ کسی بھی زاویے سے ان کے کہنے کے مطابق نظر نہ آیا۔۔۔۔ دوست جو سورج دکھانا چاہتے تھے وہ حسب سابق کہیں سیاہ بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا ۔۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ بادل گھر آنے سے پہلے وہ سورج دیکھ چکے ہیں ۔۔۔۔ مگر دل یہ ماننے کو تیار نہ تھا۔۔۔۔ دوستوں کی باتیں سن کر ذہن میں بار بار یہ سوال ابھرا کہ جو سیاہ بادل ہمارے عدل کے ایوانوں پر عرصہ دراز سے چھائے ہوئے ہیں وہ آناً فاناً کیسے چھٹ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے12جولائی کے فیصلے میں دوستوں کو جو انصاف نظر آیا اسے کچھ قانون شناس رفقا کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے اپنا فہم استعمال کرنے کے بعد یہ کہا کہ جو کچھ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے اسے فلسفہ قانون کے مطابق کسی طرح بھی آئینی و قانونی نہیں سمجھا جاسکتا۔ جس طرح انصاف کا سورج دکھانے والے دوستوں کی باتیں مبہم تھیں اسی طرح قانون فہم ساتھیوں کی باتوں میں بھی ابہام محسوس ہوا۔ ایسا ہونے پر جب ان کے موقف کے حق میں کسی اصول کا حوالہ طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب کوئی عدالت مقدمے کے کسی فریق کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اسے وہ بھی بخش دے جو اس نے مانگا ہی نہ ہوتو فلسفہ قانون کے مطابق ایسے فیصلے کو کسی صورت بھی مبنی بر انصاف تصور نہیں کیا جاسکتا۔ قانون فہم دوستوں کی یہ بات سننے کی دیر تھی کہ ذہن فوراً سپریم کورٹ آف پاکستان کے 24برس قبل سنائے گئے ایسے فیصلے کی طرف چلا گیا جس میں عدالت عظمیٰ کے فراخدل ججوں نے مقدمے کے ایک فریق کو وہ کچھ عطا کیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ اس مقدمے کو تاریخ میں PLD 2000 SC 869کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
سطور بالا میں چوبیس برس قبل 12 مئی 2000 کو سنائے گئے سپریم کورٹ کے جس فیصلے کا ذکر کیا گیا ہے اس کو تخلیق کرنے والے بینچ میں اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان سمیت جسٹس بشیر جہانگیری، جسٹس اعجاز نثار، جسٹس عبدالرحمٰن خان، جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس چودھری محمد عارف، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس راشد عزیز خان، جسٹس ناظم حسین صدیقی، ، جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس قاضی محمد فاروق اور جسٹس رانا بھگوان داس شامل تھے۔ اس بینچ کے سامنے یہ درخواست رکھی گئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے ، وزیراعظم میں نوازشریف کی حکومت ختم کرنے کے عمل کو غیر آئینی قرار دے کر فوج کو حکومتی ایوانوں سے نکل کر بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دیا جائے ۔ اس درخواست کے جواب میں مشرف کے وکیلوں نے یہ موقف پیش کیا کہ میاں نوازشریف نے جس طرح پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوش کیا اس کے بعد فوج کے پاس کرنے کو وہی کچھ رہ گیا تھا جو اس نے کیا ، لہذا فوج کے 12مئی کے ایکشن کی توثیق کی جائے۔ مشرف کے وکیلوں نے سپریم کورٹ کے 12 رکنی بینچ سے صرف 12اکتوبر کے عمل کی توثیق کی در خواست کی تھی مگر مذکورہ ججوں نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کی بلکہ کمال مہربانی فرماتے ہوئے اسے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا ، حالانکہ مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر مشرف کے وکیلوں نے اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات کی استدعا کی ہی نہیں تھی۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12جولائی 2024کو جس مقدمے کا فیصلہ سنایا اس کی نوعیت اس مقدمے سے انتہائی مختلف ہے جس کا فیصلہ 12مئی 2000کو سنایا گیا تھا۔ ان دونوں مقدمات کی نوعیت یکسر مختلف ہونے کے باوجود اگر ان میں یہ یکسانیت ہے کہ ان میں کسی فریق کو وہ دیا گیا جس کی اس نے درخواست ہی نہیں کی تھی تو پھر کسی کو بھی نہ تو اس یکسانیت سے انکار اور نہ ہی اس کا حوالہ دینے پر کوئی اعتراض ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے12مئی2000 کو سنائے گئے فیصلے کے یہاں ذکر کا مقصد کسی قسم کی پوائنٹ سکورنگ نہیں بلکہ ایسے دوستوں کے سامنے کچھ حقائق رکھنا ہے جو تبدیل شدہ وقت میں عدلیہ کے ماضی کی نسبت تبدیل شدہ رویوں اور فیصلوں کو دیکھ کر یہ ماننا اور منوانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے عدل کے ایوانوں سے ناانصافی کے سیاہ بادل چھٹ جانے کے بعد انصاف کا نیا سورج طلوع ہونا شروع ہو چکاہے۔ 12مئی 2000کو سپریم کورٹ کے جس بینچ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرنے کے ساتھ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا اس میں افتخار محمد چودھری اور رانا بھگوان داس بھی شامل تھے۔ ان دو ججوں نے پہلے جنرل ( ر) پرویز مشرف کے غیر آئینی اقتدار کو جواز فراہم کیا اور پھر کچھ برس بعد تبدیل شدہ حالات میں یہ دونوں تبدیل شدہ ترجیحات کے ساتھ نمودار ہوئے۔ یہ دونوں جج اور ان کے کئی دیگر ساتھی جج جو قبل ازیں خود بھی پی سی او پر حلف اٹھا چکے تھے انہوں نے معطل کیے جانے کے بعد نئے پی سی او ججوں کے خلاف طوفان کھڑا کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ وہ اگر دوبارہ بحال ہوئے تو یہاں عدل و انصاف کی ایسی مثالیں قائم کریں گے جو نہ کسی نے دیکھی اور نہ ہی سنی ہونگی۔ بعد ازاں، خاص طور پر افتخار محمد چودھری نے بحال ہونے کے بعد پاکستان کا سب سے زیادہ عرصہ تک چیف جسٹس رہنے کا ریکارڈ تو قائم کر دیا لیکن اپنے عہدے کو کسی بد ترین آمر کی طرح استعمال کرتے ہوئے سول حکومت، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو رسوا کرنے کی ہر کوشش کرنے کے باوجود عدل و انصاف کی ایسی کوئی ایک مثال بھی قائم نہ کی جس کی بدولت انہیں مثبت الفاظ میں یاد کیا جاسکے۔
یہاں کچھ ایسے وکیل بھی عدالت عالیہ و عظمیٰکا حصہ بنے جو افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کے دوران ’’ عدل بنا جمہور نہ ہوگا‘‘ اور ’’ چیف تیر ے جانثار بے شمار بے شمار‘‘ جیسے نعرے لگایا کرتے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی سسٹم کو توڑتا ہوا نظر نہ آیا ۔ اگر کبھی کسی پر سسٹم کو توڑنے کا شائبہ ہوا بھی تو وہ درپردہ سسٹم کو مزید مضبوط کرتا پایا گیا۔ ماضی میں جب بھی عدلیہ پر سسٹم کو توڑنے کا شائبہ ہوا تو بعد ازاں یہ حقیقت کھلی کہ سسٹم کو توڑا نہیں بلکہ اپنے ماضی کے برعکس فیصلے کر کے کسی نہ کسی سیاسی گروہ اس طرح فائدہ یا نقصان پہنچایا جارہا ہے جس سے سیاسی محاذ آرائی میں مزید اضافہ ہو۔
اس ملک کے مسائل کا حل سیاسی محاذ آرائی نہیں سیاسی مفاہمت ہے، سیاسی مفاہمت کے لیے بہترین پلیٹ فارم عدل کے ایوان نہیں پارلیمنٹ ہے ۔ پارلیمنٹ کو سیاسی مفاہمت کے لیے استعمال کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سیاستدان اپنا گریبان عدالتوں کے سپرد کرنے کی بجائے مل کر بیٹھ کر یہاں موجود آئینی و قانونی سقم دور کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کریں۔

جواب دیں

Back to top button