عوام بے بس، حکمران بے حِس

رفیع صحرائی
بندہ دیارِ غیر میں لٹ جائے تو اس کا اتنا دکھ نہیں ہوتا کو لوٹنے والے اجنبی ہوتے ہیں مگر جب اپنے دیس میں اپنوں کے ہاتھوں لٹ جائے تو دکھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر لٹیرے وہ ہوں جن سے خیر اور بہتری کی توقع ہو تو اس سے بڑی بدقسمتی نہیں ہو سکتی۔
ایک سڑک پر بورڈ لگا ہوا تھا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا۔
’’ حد رفتار 60کلومیٹر‘‘
یہ بورڈ ڈرائیوروں کو بہت دور سے نظر آ جاتا تھا چنانچہ وہ اس کے قریب پہنچتے پہنچتے گاڑی کی رفتار 60کلومیٹر فی گھنٹہ سے کافی کم کر لیتے۔ جب وہ اس بورڈ کے قریب پہنچتے تو آڑ میں کھڑا ہوا ایک ٹریفک پولیس کا سپاہی نکلتا اور ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کر کے اس کے ہاتھ میں جرمانے کی پرچی تھما دیتا۔ ڈرائیور احتجاج کرتے ہوئے بتاتا کہ اس نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور ناحق اسے جرمانہ کیا گیا ہے۔ پولیس مین اسے دوبارہ بورڈ پڑھنے کا مشورہ دیتا جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا۔
’’ حد رفتار 60کلومیٹر‘‘
تب ڈرائیور کی نظر اس عبارت سے پہلے انتہائی باریک لکھے ہوئے الفاظ پر پڑتی جو کچھ یوں تھے ۔
’’ کم از کم‘‘
یعنی پوری عبارت اس طرح سے تھی۔ ’’ کم از کم حد رفتار 60کلومیٹر‘‘۔ ٹریفک پولیس والوں نے لوگوں کی جیبوں سے رقم نکالنے کا ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا تھا جس پر احتجاج تو کیا جا سکتا تھا مگر مفر ممکن نہیں تھا۔
یہی کچھ آج کل حکومت عوام کے ساتھ کر رہی ہے۔ بجلی کے بلوں میں موجود ٹیکسز کی اقسام ہی کو لے لیجیے، پوری دنیا میں ایسے ٹیکسز کا آپ کو وجود ہی نہیں ملے گا۔ مثلاً ایکسٹرا ٹیکس، مزید ٹیکس، ریٹیلر ٹیکس، اضافی ٹیکس، سپر ٹیکس۔ جانے یہ ٹیکسوں کی کون سی اقسام ہیں۔ مہذب معاشروں میں حکومتیں عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں سوال کرنا بھی جرم اور توہینِ حکومت کے زمری میں آتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی یہی ہے کہ ان ممالک میں انصاف کا چلن ہے۔ ہمارے یہاں انصاف دینے والے شہنشاہی مراعات حاصل کر رہے ہیں اور یہ ایک ایسی رشوت ہے جس نے منصفوں کی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں سے بلبلاتے عوام کی چیخیں انہیں سنائی دیتی ہیں نہ پھٹے کپڑوں والے پسینے میں شرابور مفلوک الحال نظر آتے ہیں جو ٹیکس بھرنے کے لیے چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ بجلی، گیس پٹرول، ادویات اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتنا بڑا اضافہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ عوام بے کسی کے ساتھ ساتھ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کبھی بجلی، کبھی گیس، کبھی چینی، کبھی دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ دیکھ دیکھ کر اب تو عوام میں رونے کی سکت بھی نہیں رہی۔ عوام ایک خواب، ایک سکتے کے عالم میں بیٹیوں کے چھوٹے موٹے زیور، اپنی جمع پونجی، گھر کی مشینری اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا ء بیچ کر یوٹیلٹی بلوں کی مد میں حکومتی خزانہ بھرنے میں لگی ہے مگر شاید اس خزانے میں روزانہ کی بنیاد پر سیندھ لگا کر اسے ساتھ ساتھ ہی خالی بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یا پھر یہ خزانہ بھی عمر و عیار کی زنبیل بن گیا ہے جس نے ہر چیز کو اپنے اندر سما لینا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہمیں مینڈیٹ سے زیادہ طویل العمر نگران حکومتیں بھگتنا پڑیں جنہوں نے عوام کو لوٹ لوٹ کر کاروبارِ حکومت چلایا۔ عوام کا خیال تھا کہ یہ کڑا وقت ٹل جائے گا۔ ووٹ لے کر آنی والی سیاسی حکومت اپنی مقبولیت بچانے اور قبولِ عام بننے کی خاطر عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔ وہ بے تحاشہ مہنگائی کرنے کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گی۔ دیہاڑی داروں کو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ انہوں نے سیاست کرنی ہے نہ عوام کے پاس ووٹ کے لیے جانا ہے۔ اس لیے انہوں نے بے حسی کا لبادہ ہی نہیں اوڑھ رکھا بلکہ سراپا بے حسی اور مجسم ظلم بنے ہوئے ہیں۔ تبھی تو کارخانہ داروں اور بڑے سرمایہ داروں کو اشیا ء مہنگی کرنے کے باوجود سبسڈی دی جا رہی تھی مگر عوام کو ہر قسم کی سبسڈی سے محروم کر کے یوٹیلٹی سٹوروں پر اشیائے صرف بازار سے بھی مہنگی کر دی گئی تھیں۔ نگرانوں سے جان چھوٹی، منتخب حکومت قائم ہوئی۔ الیکشن مہم میں مہنگائی ختم کرنے کے دعوے اور وعدے کرنے والے برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے چھری بھی تیز نہیں کی بلکہ کُند چھری سے عوام کو ذبح کرنا شروع کر دیا ہے۔
تاکہ تڑپتے، بلکتے، سسکتے اور چیختے عوام کی حالتِ زار سے بھرپور لطف اندوز ہوا جا سکے۔
مہنگائی کے ہاتھوں اس وقت سب سے زیادہ متاثر طبقہ سفید پوش اور سرکاری ملازمین کا ہے۔ سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ بجلی و گیس کے بل ادا کریں یا بچوں کی خوراک خریدیں۔ اولاد کے تعلیمی اخراجات برداشت کریں یا ان کے لیے لباس خریدیں۔ دوستوں، رشتہ داروں کی شادی کا کارڈ آ جائے تو گویا صفِ ماتم بچھ جاتی ہے کہ اب یہ اضافی خرچہ کہاں سے لائیں، گھر میں تو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سرکاری ملازمین سب سے زیادہ مظلوم بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ مکمل طور پر حکومت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان ملازمین کو اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ مراعات چھین کر اور ہاتھ پائوں باندھ کر مہنگائی کی عفریت کے آگے انہیں پٹخ دیا ہے۔ پٹرول، بجلی اور گیس کے بل ان کی استطاعت سے باہر ہو چکے ہیں
اس قدر مہنگائی کا طوفان برپا کرنے سے پہلے انسانیت کے ناتے سے ہی سوچ لیا جائے کہ کیا آپ نے سرکاری ملازمین یا سفید پوش طبقے کی آمدنی میں بھی اتنا اضافہ کر دیا ہے جس قدر مہنگائی کا بوجھ ان پر لاد دیا ہے؟۔
دکھ تو اس کا ہے کہ عدلیہ نے بھی عوام سے منہ موڑ لیا ہے۔ بات خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے مگر کسی صوبے کے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سوموٹو لینے اور حکومتی نمائندوں کو بجلی، پٹرول اور گیس کو بے تحاشہ مہنگا کرنے پر عدالت میں طلب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے؟ ان کو بجلی، گیس اور پٹرول مفت دستیاب ہیں۔ مہنگا علاج سرکار کے کھاتے سے ہوتا ہے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ اگر اپنی تنخواہ سے یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے پڑتے تو ممکن ہے اونچی کرسی پر بیٹھنے والے یہ منصف عوام کو انصاف دلا سکتے۔ فی الحال تو عوام مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ عوام کی تقدیر کی مالک حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بیلنے میں جاتے ہوئے عوام کے نچڑتے ہوئے خون کو بے حسی کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔





