ہے کہاں ہے روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟

امتیاز یٰسین
تقسیم ہند کے وقت متحدہ ہندستان میں تقریباً562 آزاد اور خود مختار ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کا برطانوی ہند کی بجائے اپنا خود مختار ریاستی نظام تھا۔ ان ریاستوں میں ایک ریاست جموں و کشمیر تھی جو1846سے 1947تک ایک آزاد ریاست چلی آ رہی تھی۔ اس کا رقبہ 84471مربع میل ہے۔ کشمیر کی آبادی اس وقت 65لاکھ نفوس پر مشتمل جن میں 77فیصد حصہ مسلمانوں کی آبادی کا تھا۔15جولائی1947برطانوی پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین تقسیم ہند کی رو سے تمام ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ چاہے تو پاکستان یا ہندوستان میں کسی ایک سے الحاق کر لیں یا اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھیں۔ جنت نظیر خطہ اور وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے بھارت کا دل للچا رہا تھا اور مسلم اکثریتی ہونے کا باوجود اسے اپنا حصہ بنانے کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور قوانین کے برعکس سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی اس سلسلے میں گھنائونی حرکات کیں ۔ 19جولائی1947کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے جنرل کونسل کے اجلاس میں جو چودھری حمید اللہ کی صدارت میں منعقد ہوا کشمیری مسلم رہنماؤں کی بہت بڑی تعداد نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی قرارداد منظور کی۔عالمی قوانین کے مطابق ہر انسان کی شخصی آزادی اس کا پیدائشی حق ہے اور کشمیریوں نے اپنا یہ استحقاق پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا۔ اس اعلان پر متعصب اور شدت پسندوں نی اپنی ریاستی طاقت کا استعمال کر کے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو دبانے کی کوشش کی جس پر حریت پسند بھی میدان میں آ گئے ۔ ریاست جونا گڑھ کے مسلم نواب نے ریاستی دیوان سر شاہ نواز بھٹو کے ساتھ پاکستان سے الحاق کا معاہدہ کر لیا بعد اذان ریاست ریاست مناوا در کے نواب نے بھی جونا گڑھ کی تقلید میں پاکستان میں شرکت کی آمادگی کا اظہار کیا۔ بھارت کی ہٹ دھری یہاں بھی آڑے آ گئی کہ ان ریاستوں کے الحاق کا فیصلہ ان کی عوام کو ہے حالانکہ بھارت کشمیر میں ایسا موقف نہیں رکھتا۔ پچھتر برس گزرنے کے باوجود انڈیا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تمام قوانین پامال کر کے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ پاکستان بھی مسلسل اپنے مسلمان بھائیوں پر روا ظلم اور نا انصافی کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرتا آیا ہے پاکستان کشمیری مظلوموں کے ساتھ پانچ فروری1990 سے اظہار یکجہتی کا دن بھی مناتا ہے جب کشمیریوں کی طرف سے انڈیا کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور بر بریت کے خلاف مظاہروں اور حریت مطالبہ شدت کے جواب میں انڈین فوج نے سرینگر اور دیگر شہروں میں اکیاون سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔ اس دن بھارت کو یہ باور کروانا ہے کہ تمہارا ظلم و بربریت، انتہا پسندی، جارحیت و استعماریت کی داستانیں رقم کرنے، کشمیری مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے اور انسانی حقوق کی پامالیاں ہمارے جذبہ حریت اور حقوق کے جدوجہد کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔ مظلوم کشمیریوں کی آواز کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے تاکہ بھارت کی سالہا سال سے جاری ہٹ دھرمی کو عالمی برادری کے سامنے لایا جا سکے۔ بھارت کشمیریوں کی آزادانہ زندگیاں گذارنے میں کس طرح اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی نفی کر رہا ہے۔ گزشتہ پچھتر سالوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور چار جنگوں کی اہم ترین وجہ کشمیر ہے۔ کشمیر ی نوجوان جس جوانمردی سے انڈین فوج کے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہی ہے ان کی مثالیں انسانی تاریخ دینے سے قاصر ہے۔ تحریک آزادی روئے زمین کی سب سے بڑی طویل اور کٹھن جدوجہد ہے۔ اقوام متحدہ نے جنوری 1948میں کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے اور امنگوں کے مطابق کمیشن کی زیر نگرانی استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس فیصلے کو تسلیم اور تائید کی لیکن بعد ازاں اس عالمی فیصلے سے باغی و منحرف ہو کر اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔ کشمیری مسلمان اس وقت سے قابض بھارتی فوج کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔وطن عزیز میں کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کیا جا رہا ہے ہم اس مسئلے پر تمام مسلم برادری ایک پیج پر یک جان دو قالب ہو کر کھڑی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پانچ اگست 1919سے لیکر آج تک19جولائی2024تا حال جاری یعنی 1809دن سے زائد دنیاوی تاریخ کے بدترین کثیرالجہتی کرفیو اور فوجی محاصرے کا نفاذ، آرٹیکل370جس میں ریاست کشمیر کی حیثیت ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی کے خاتمہ نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو مزید تیز کر دیا ہے اور کشمیر دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن گیا۔ بھارت کشمیریوں کے حق خو ارادیت کو کچلنے کے لئے انسانیت سوز ٹارچر بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ یاسین ملک سمیت کشمیری رہنماؤں کو نئی دہلی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل کر رکھا ہے ان پر ذہنی جسمانی تشدد کیا جا تا رہا۔ اب بھاری عدالت نے عظیم مجاہد اور حریت رہنما کو نام و نہاد ٹیرر فنانسنگ کے الزام میں دو بار عمر قید اور دس لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں انہیں دیگر بے بنیاد الزامات کے تحت مختلف دفعات کے تحت دس دس سال کی سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں جو زمین پرامن قائم کرنے کے دعوے کرتے ہیں انہیں یاسین ملک پر ظلم نظر نہیں آتا ہے نہ عالمی سطح پر کشمیریوں کے ناحق بہتے خون پر کسی بھی دنیاوی منصفوں کے کانوں جوں تک نہ رینگی ہے۔ متعدد مرتبہ پابند سلاسل رہنے والے ممتاز حریت رہنما یاسین ملک کو 22فروری1999کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، آج تک مظلوموں اور ظلم کی شکار اقوام کی آواز بننے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں تمام دنیا کی مسلم برادری کو کشمیریوں کا بر ملا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن دکھ کی بات ہے مسلم اقوامِ عالم میں بھی اتفاق و اتحاد کا فقدان ہے۔
کشمیریوں کو ظلم سہتے دیکھتے بہت ہو چکا۔ پاکستان ایک مسلم ملک اور اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ امن کا پرچار کرتے کرتے پچھتر سال لاکھوں کشمیریوں، عورتوں، بچوں سمیت کے خون کی ہولی کھیلتے دیکھتے رہے، بھارتی فورسز کشمیری عورتوں کی عصمت دری و جنسی زیادتی اور حیوانیت جنگی ہتھیاروں کے طور پر کر رتا رہا، بھارتی ریاستی جبر کو امریکی صدر سیاسی دلاسوں اور طفل تسیلیوں سے ٹال رہا ہے۔ ہم نے مذاکرات، سفارت کاری اور بات چیت کے تمام حربے آزما لئے، عالمی طاقتوں پر بھی لگائی گئیں امیدیں بر نہ آئیں۔ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔ یاد رہے فارسی کا مقولہ ہے کہ آزمائے ہوئوں کو آزمانا جہالت ہے، اب مغربی طاقتوں پر مزید تکیہ کرنا اپنے آپ اور کشمیریوں کو دھوکہ کے مترادف ہو گا۔ ہمت مرداں مدد ِ خدا۔ ہمارے بنیؐ کا فرمان ہے کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ غزوہ بدر کے واقعہ کو یاد کیجئے جب تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کی مختصر افرادی قوت نے ایک ہزار کے کفریہ جنگی ساز و ساماں سے لیس گھمنڈی لائو لشکر کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ اس طرح کے واقعات سے اسلامی تاریخیں بھری پڑی ہیں عصرِ حاضر میں افغانستان کی حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہم پر جہاد کی فرضیت تو اسی وقت ہو چکی تھی جب بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے رائے شماری کو نظر انداز کر کے اسلامی ریاست کشمیر پر قبضہ جما لیا تھا دیر آید درست آید۔ ہم ایٹمی قوت ہیں اللہ پر یقین، غیبی مدد اور کامل بھروسہ کرتے ہوئے تیار رکھے گھوڑوں کے ساتھ شمشیر بکف ہو کر ان پر ٹوٹ پڑنا چاہیے۔ اللہ کے وعدے کے مطابق نصرت اہل ایمان کی ہوتی ہے۔ پوری قوم اور جری افواج پاکستان جذبہ ایمانی کے ساتھ مظلوم مجاہدین کی پشت پر ہمالیائی چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ کسی بھی اقلیت کی آزادی کو اکثریت بندوق کی طاقت سے زیادہ دیر دبا نہیں سکی، قائد کے بقول کشمیر ہماری شہ رگ بھی ہے ۔ بھارت کا غرور اور ہٹ دھرمی خاک میں ملانے کا وقت آ گیا، قرآن مجید کے مطابق ان سومائوں کی گردنیں مارنے اور پور پور توڑنے کا وقت آن پہنچا۔ کفر اور طاغوتی طاقتوں سے دبنا اور مرعوب ہونا مسلمانوں کی روایت نہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کو بھارتی جبرو استبداد اور شکنجے کے چھڑانے کا فیصلہ کن وقت آ چکا۔ اب احتجاج نہیں صرف اور صرف جہاد۔ ان شاء اللہ اب چودہ اگست کی سالانہ تقریبات کے ساتھ ایک اور قومی تقریب کا اضافہ ہو گا وہ آزادی کشمیر ڈے ہو گا۔ حکومت وقت ضائع کئے بغیر کھل کر اعلان جہاد کرے دیکھیں مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی خون کھولتے نوجوان مر مٹنے کے لئے سروں پر کفن باندھ کر کیسے نکلتے ہیں۔ گھاس پھوس کھا کر پیٹ پر پتھر باندھ کر ایٹمی پاور اس لئے حاصل نہیں کی تھی کہ کشمیری بہن بھائیوں کو ان درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں ۔
آہ! یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟





