پی ٹی آئی پابندی کی زد میں

رفیع صحرائی
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب عطا تارڑ نے حکومت کی طرف سے عندیہ دیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سابق صدر جناب عارف علوی، قاسم سوری اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر آرٹیکل 6کا مقدمہ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل 6 کا مقدمہ قاسم سوری کے بطور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی تحریکِ عدمِ اعتماد پر رائے شماری کرانے کی بجائے اسے غیر موثر کرنے کے ’’ جرم‘‘ میں بنایا جائے گا جنہوں نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اس پر کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان نے اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر سے بھی یہی فرمائش کی تھی جنہوں نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صاف انکار کر دیا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر جناب قاسم سوری جو مبینہ طور پر ایک متنازعہ الیکشن جیت کر آئے تھے اور قریباً ساڑھے تین سال سے چیف جسٹس آف پاکستان کی آشیرباد ( اسٹے آرڈر) کی چھتری کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھے وہ عمران خان کے ممنونِ احسان تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ بڑا رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اب اس فیصلے کے مضمرات سامنے آ گئے ہیں۔ قاسم سوری اپنی بہادری کی قیمت ادا کرنے جا رہے ہیں۔
جناب عمران خان بھی اسی معاملے میں آرٹیکل 6کی زد میں آ رہے ہیں۔ انہوں نے قاسم سوری کی رولنگ کے فوراً بعد صدرِ مملکت جناب عارف علوی کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس جاری کی تھی۔ جبکہ سابق صدر جناب عارف علوی اس ایڈوائس کی منظوری کی پاداش میں آرٹیکل 6کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔
اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ابہام تھا تو عطا تارڑ کی پریس کانفرنس نے اسے بھی دور کر دیا ہے یہ فیصلہ پی ٹی آئی پر لگنے والی متوقع پابندی کا ابتدائیہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جب کوئی ارادہ کر لیا جاتا ہے تو پھر فیصلہ آنے میں دیر نہیں لگتی۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ دے کر سب کو حیران بلکہ انگشت بدنداں کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس فیصلے کے ذریعے ایسا بڑا ریلیف دیا گیا ہے جس کا اس نے کبھی مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں جب یہ کیس گیا تھا تو پی ٹی آئی کسی موقعے پر بھی اس کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔ کیس میں فریق سنی اتحاد کونسل تھی مگر بینیفشری پی ٹی آئی ٹھہری۔ حکومتی ایوانوں میں تو جو ہلچل مچنی تھی وہ مچی ہی لیکن باقی مقتدر حلقوں میں بھی اس فیصلے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ البتہ کچھ دانشور اور سیاسی پنڈت بہت دور کی کوڑی لے کر آئے کہ چونکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں لارجسٹ پارٹی بننے جا رہی ہے لہٰذا شہباز شریف حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ کچھ متعصب دانشورانِ سیاست نے تو جناب آصف زرداری اور عمران خان میں کئی روز پہلے ہی صلح ہونے کی خبر بریک کرتے ہوئے جناب عمران خان کو جیل سے سیدھا وزیرِ اعظم ہائوس لینڈ کرنے کا نقشہ بھی کھینچ دیا تھا۔ ایک بزعمِ خود بڑے صحافی نے یہ راز بھی منکشف کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میاں شہباز شریف سے اکتا چکی ہے اور اب ان سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ عمران خان کی سیاسی مخالفت ہے۔ لڑائی یا جنگ نہیں ہے۔ عمران خان کی لڑائی بلکہ جنگ مقتدرہ سے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سانحہ9مئی کی تحقیقات ہر لحاظ سے مکمل کر لی ہیں۔ وہ اس کے ذمہ داروں کا تعین بھی کر چکی ہے بلکہ اپنے اندر کے ذمہ داروں کو تو باقاعدہ سزا بھی دے چکی ہے۔ اب سویلین کی باری ہے۔ فوج نے اپنے اس بیانیہ کو بارہا دہرایا ہے کہ جو کام دشمن فوج سات دہائیوں میں نہ کر سکی اسے ملک کے اندر سے ہمارے اپنوں نے کر دکھایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج 9مئی کے تمام کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتی ہے۔ فوج واضح طور پر عمران خان کو اس سانحہ کا ماسٹر مائنڈ سمجھتی ہے۔ فوج تو عمران خان پر فوجی عدالت میں 9مئی کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی مگر جناب شہباز شریف اور آصف زرداری آڑے آ گئے اور انہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے بڑے دور رس اثرات ہوں گے۔ مستقبل میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی اسی طرح کے سوالات اٹھیں گے جن سوالات کا جناب عمران خان کو سامنا ہے۔ عمران خان نے اپنے دور میں فوجی عدالتوں کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ فوجی عدالتوں کے سزا یافتہ لوگوں کو پشاور ہائی کورٹ سے ریلیف ملنے پر اس ریلیف کے خلاف باقاعدہ سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے جس پر 2019میں سپریم کورٹ نے اسٹے دے دیا اور وہ لوگ جیلوں سے رہا نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جون 2013میں عمران خان فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ گئے تو انہیں ہر جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سانحہ 9مئی کے بعد عمران خان کسی کے ڈارلنگ نہیں رہے۔ مستقبل بعید کا تو پتا نہیں مگر مستقبل قریب میں عمران خان جیل سے باہر آتے نظر نہیں آ رہے۔ انہیں ’’ قرار واقعی‘‘ سزا دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ سنا ہے عمران خان نے گزشتہ سال 9اور 10جولائی کی درمیانی شب ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ’’ غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کے لیے پیغام بھیجا تھا مگر ادھر سے جواب ملا تھا کہ ’’ ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ ہر چیز صاف اور واضح ہے‘‘۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ثابت ہوا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر آرٹیکل 6کے کیس کو مسلسل ٹالتی آ رہی تھی۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں گزارش کی تھی کہ حکومت کے پاس ہمیشہ بہت سے آپشن ہوا کرتے ہیں۔ جب وہ کسی کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے تو جواز ہاتھ باندھ کر قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حکومتی فیصلے کے بعد نیا مقدمہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پوری قوم اس مقدمے کے حقائق سے پہلے ہی آگاہ ہے۔ یہ مقدمہ بھی کافی طول کھینچے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جلدی جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ اور اگر ان پر آرٹیکل 6ثابت ہو گیا تو نہ صرف ان کا اپنا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے بلکہ پی ٹی آئی بھی بطور سیاسی جماعت اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے گی۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کو ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سٹینڈ لے لیا ہے۔ حکومت نے بھی ریویو میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہمارا ملک معجزوں کی سرزمین ہے۔ صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہر جاتے ہیں۔ تخت سے تختے اور تختے سے تخت کا سفر طے کرنے میں بعض اوقات چند پل ہی لگتے ہیں۔







