راست باز بیوروکریٹس، چند یادیں

امتیاز عاصی
گندم سکینڈل سے یاد آیا وفاقی حکومت نے ایڈیشنل سیکرٹری انچارج کیپٹن ( ر) محمد آصف اور چند دیگر ملازمین کو معطل کر دیا تھا۔ کیپٹن آصف کا تعلق تحصیل تلہ گنگ کے گائوں ٹمن سے ہے، وہ شریف النفس سابق رکن اسمبلی ممتاز ٹمن کے صاحبزادے اور ایئر مارشل نور خان کے بھانجے ہیں۔ سوال ہے اربوں روپے گندم درآمد کا فیصلہ تنہا کوئی سیکرٹری کر سکتا ہے؟، اس میں وفاقی وزیر، وزارت تجارت اور ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان کے لوگ بھی شامل ہوں گے ۔ بہرکیف گندم سکینڈل کا غلغلہ چند روز میں بیٹھ گیا اور حکومت نے خراب گندم کی فروخت کے لئے ٹینڈر جاری کر دیا۔ راولپنڈی میں ستر برس کی سکونت کے دوران میری اسلام آباد میں بہت سے وفاقی سیکرٹریوں سے راہ و رسم ہے۔ بہت سوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وفاقی سیکرٹریوں میں چند نام ایسے ہیں جنہوں نے اس ناچیز کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان وفاقی سیکرٹریوں میں جناب محمد یوسف، جناب مظہر رفیع، جناب لطف اللہ مفتی اور جناب مشکور احمد خان جیسے راست باز بیوروکریٹس سے وابستہ چند یادیں میرے دل میں نقش ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں
ہماری بیوروکریسی میں کیسے کیسے لوگ ہو گزرے ہیں جو کسی بڑے سے بڑے کا دبائو قبول نہیں کرتے تھے اور اپنی راست بازی سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ جناب مشکور احمد خان مرحوم کا تعلق آڈٹ اینڈ اکائونٹس گروپ سے تھا وہ سپیشل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بھی رہے۔ ایک روز بیوروکریٹ ایس ایم اسماعیل کی رہائش گاہ پر بیٹھے بتا رہے تھے انہیں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے رانا مقبول احمد خان کو آئی جی بنانے کو کہا تو مشکور صاحب نے جواب دیا وہ سینیارٹی لسٹ میں سب سے آخر میں ہے، اسے ہم کیسے آئی جی بنا سکتے ہیں۔ کسی وزیراعظم کو وفاقی سیکرٹری کا یہ جواب کیسے قابل برداشت ہو سکتا تھا لیکن مشکور احمد خان ڈٹے رہے اور خلاف قاعدہ کام کرنے پر رضامند نہیں ہوئے۔ اب انہی کا بیٹا ذوالفقار حیدر گریڈ بائیس کا وفاقی سیکرٹری مذہبی امور ہے۔ لطف اللہ مفتی کئی برس مذہبی امور کے سیکرٹری رہے درمیان میں انہیں زرداری صاحب کے حکم پر اقلیتی امور کا سیکرٹری بنا دیا گیا تھا جس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ بے نظیر بھٹو کا دور تھا سندھ سے تعلق رکھنے والے فوزی نقوی حاجیوں کے لئے مکہ مکرمہ میں کمپلیکس تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے تین سو ملین ڈالر درکار تھے۔ چنانچہ آصف زرداری نے سیکرٹری مذہبی امور کو اپنے آفس طلب کیا۔ مفتی صاحب نے زرداری صاحب سے کہا وہ کمپلیکس تعمیر کرکے دیں وہ حاجیوں کے لئے کرایہ پر لے لیا کریں گے۔ اس وقت آصف علی زرداری نے رضامندی ظاہر کر دی جب سیکرٹری مذہبی امور اپنے آفس واپس پہنچے تو زرداری صاحب نے انہیں فون پر ہدایت کی نہیں نقوی صاحب کو تین سو ملین ڈالر دینے ہیں۔ جب سیکرٹری مذہبی امور نے اس معاملے میں لیت و لعل کیا تو انہیں اقلیتی امور میں بدل دیا گیا اور سندھ سے تعلق رکھنے والے گریڈ اکیس کے محمد زیبر قدوائی کو انچارج سیکرٹری مذہبی امور بنا دیا گیا جنہوں نے کابینہ سے مکہ مکرمہ کمپلیکس کی تعمیر کی منظوری لے لی۔ اللہ کا کرنا دیکھئے چند روز بعد بے نظیر حکومت برطرف کر دی گئی ۔ صدر مملکت فاروق خان لغاری نے نگران وزیر مذہبی امور ملک فرید اللہ خان سے مکہ مکرمہ کمپلیکس کی فائل طلب کر لی۔ ملک فرید اللہ خان سے اس ناچیز کے دوستانہ تعلق تھے وہ ہماری حاجیوں کی بہبود کی تنظیم کے صدر بھی تھے ۔ سیکرٹری مذہبی امور بہت پریشان ہوئے اور مجھ سے کہا آپ وزیر صاحب سے کہیں جب صدر کے پاس فائل لے کر جائیں تو انہیں بھی ہمراہ لے چلیں۔ جب میں نے وزیر صاحب سے سیکرٹری کی خواہش ظاہر کی تو وہ انہیں ساتھ لے جانے پر رضامند ہوگئے ورنہ سیکرٹری کی پریشانی کا یہ عالم تھا وہ ملازمت سے اپنی معطلی دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا فاروق لغاری ان کے بیچ میٹ ہیں لیکن اب وہ صدر ہیں میری ملازمت چلی جائے گی بہرکیف وہ معطلی سے بچ گئے ۔ جناب مظہر رفیع کی بات کریں تو انہوں نے ایمانداری کی نہ بھولنے والی یادیں رقم کیں۔ سندھ میں تعیناتی کے دوران جام صادق نے انہیں تین سو پلاٹ غریبوں میں تقسیم کرنے کو کہا۔ جب تمام پلاٹ تقسیم ہوگئے تو وزیراعلیٰ کو انہوں نے بتایا سب پلاٹ غریبوں کو دے دیئے گے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے مظہر رفیع صاحب سے سوال کیا اپنے لئے کتنے رکھے ہیں جب انہوں نے نفی میں جواب دیا تو وزیراعلی حیران رہ گئے۔ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کی حیثیت سے ان پر سیاست دانوں کا خاصا دبائو رہا۔ ایک روز بتانے لگے لیک ویو موٹل کے لئے جگہ درکار تھی۔ کابینہ نے اس مقصد کے لئے کمیٹی بنائی جس کے وہ سیکرٹری تھے۔ سی ڈی اے بائی لاز کے مطابق جتنی اراضی مل سکتی تھی کمیٹی کی کارروائی کابینہ اور وزیراعظم کو بھیج دی گئی۔ ایک روز انہیں جنرل نصیر اللہ خان بابر کا فون آیا وہ سمری واپس بھیج رہے ہیں لیک ویو موٹل کے لئے جگہ زیادہ درکار ہے جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے انکار کر دیا۔ اگلے روز حاکم علی زرداری کا فون آگیا موٹل کے لئے جگہ زیادہ چاہیے لہذا سمری بدل دو لیکن راست باز مظہر رفیع نے عہدے کی پروا کئے بغیر ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد بقول ان کے انہوں نے اپنی میز کی درازیں صاف کر لیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا وہ اگلے روز چیئرمین سی ڈی اے نہیں رہیں گے پھر ایسا ہی ہوا انہیں اگلے روز او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ محمد یوسف اور لطف اللہ مفتی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ نہایت سادہ اور تکبر کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ جناب محمد یوسف کافی عرصہ تک زیر عتاب رہے بے نظیر بھٹو نے انہیں او ایس ڈی بنا دیا تھا، جب انہیں حقائق سے آگاہ کیا گیا تو جناب محمد یوسف کو دوبارہ سیکرٹری مذہبی امور مقرر کر دیا گیا۔ وہ سعودی عرب میں حاجیوں کے لئے مکانات کرایوں پر لینے کے معاملے میں کسی کا دبائو قبول نہیں کرتے تھے اور اپنے اختیارات کو پوری طرح بروئے کار لانے میں مشہور تھے۔ گندم سکینڈل کی بات کریں تو مجھے یقین نہیں کیپٹن ( ر) آصف ٹمن کسی طرح اس میں ملوث ہوں گے، ان کا قصور اتنا ہے وہ سیکرٹری خوراک تھے۔ ہمیں اس بات کا افسوس ہے بعض صحافی حضرات کچھ بیوروکریٹس کی خودنوشت کا بڑا چرچا کرتے لیکن ان کی مبینہ کرپشن پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔







