امام حسین ؓ وعدہ وفا کرگئے، مسلمان کب ذمہ داریاں ادا کرینگے

محمد ناصر شریف
آیا نہ ہوگا اس طرح حسن و شباب ریت پر
گلشن فاطمہ کے تھے سارے گلاب ریت پر
عشق میں کیا بچایئے عشق میں کیا لُٹایئے
آل نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
آل نبی کا کام تھا آل نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر
کربلا تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو اتنے سال گزر جانے کے باوجود اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر ہر ایک کے لیے تحقیق اور جستجو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ واقعہ کربلا وقوع پذیر ہونے کے بعد سے اب تک عالم اسلام کو دین کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ جس قدر لوگ کربلا کے واقعے کو سمجھتے جاتے ہیں ان کے عزم میں نا صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان کا وقار بھی بلند ہوتا چلاجاتا ہے ۔
سید الشہداء حضرت امام حسینؓ نے جو کچھ کیا دین اسلام کی حفاظت اور سربلندی کے لیے تھا۔ امام حسینؓ کی جانب سے اپنی ذمہ داری پر عمل تھا آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر پوری جانفشانی سے عمل بھی کیا۔ جس طرح امام حسینؓ یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ویسے ہی ہمیں بھی اپنے وقت کے یزید کو پہچانتے ہوئے اس کے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا عزم رکھنا چاہیے۔
واقعہ کربلا کا ایک پہلو انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کے احساس کو جاگنا ہے ، جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر کام سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسکا کام مرضی الٰہی کے مطابق ہے یا نہیں ؟ وہ تمام تر شرعی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لیکر نہیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار دیکر سوچتا ہے اور یہ جذبہ ہی کسی عمل کے ترک یا اس کے انجام پذیر ہونے کا محرک قرار پاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ نے ضروری و فرض جانا کہ فاسد طاقت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں، آپ نے واجب جانا کہ جہاں ضروری ہے وہاں قیام کریں اپنا لہو دیں تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ہو سکے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔
اپنے نانا حضرت محمد مصطفیؐ اور بابا حضرت علیؓ کی جانب سے ملنے والے ظاہری اور باطنی علوم میں یکتا ہونے اور آگے کے تمام حالات سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود حضرت امام حسینؓ نے اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات ، بھائیوں ،رفقا اور علی اصغرؓ کی شہادت ، اہل حرم کی اسیری، بچوں کی تشنگی کو دیکھنے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں اور نانا کے دین کے حفاظت کے لیے سب کچھ لٹانے کا راستہ اختیار کیا۔ اگر ان تمام چیزوں کو اگر آپ معمولی شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپ کبھی وہ قدم نہیں اٹھاتے جس کا انتخاب انہوں نے کیا بلکہ اپنی ذمے داریوں کو بھلا کر کوئی تیسرا راستہ اختیار کرتے۔
لیکن امام حسینؓ نے سخت ترین شرائط میں اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک شرعی ذمہ داری کی ادائیگی پر نا صرف اصرار کیا بلکہ ان کو پورا بھی کیا۔ انسان کے عقیدے اور اسکے دین کی اہمیت ، آبرو ،مال جان اور ناموس سے کہیں بڑھ کر ہے ، ایسی صور ت میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور اس کے لئے آپ کا موقف آپ کی روحانی طاقت اور دینی بصیرت کا عکاس ہے۔
جب سید الشہداء امام حسینؓ کا سامنا حر کے لشکر سے ہوا تو آپ نے فرمایا: اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی ایسے ظالم و جابر حاکم کو دیکھے جس نے حرام کو حلال کیا ہو ، عہد خدا کو توڑا ہو، سنت رسول خدا کی مخالفت کی ہو، لوگوں کے درمیان گناہ سرکشی کے ساتھ عمل کیا ہو اور ایسے ظالم حاکم و جابر کے سامنے اپنے قول و فعل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے نظارہ گر انسان کا ٹھکانہ وہی قرار دے جو اس ظالم کا ہے۔ آگاہ ہو جائو کہ انہوں نے شیطان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمٰن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے، فساد کو ظاہر کر دیا ہے حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے بیت المال کو غارت کر دیا ہے حلال الٰہی کو حرام کر دیا ہے اور حرام کو حلال قرار دے دیا ہے۔ میں ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونے میں زیادہ سزاوار ہوں تمہارے خطوط مجھ تک پہنچے ہیں اور تمہاری جانب سے بھیجے گئے وفود و تمہارے نمائندے تمہاری بیعت کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ تم مجھے اپنے عہد و پیمان کے بعد تنہا نہیں چھوڑو گے۔ مجھے دشمن کے سامنے خوار و ذلیل نہ کرو گے۔ اب اگر تم اپنی بیعت پر باقی رہے تو رشد و کمال سے جا ملو گے میں حسین ابن علیؓ فرزند فاطمہ زہراؓ دختر رسولؐ خدا ہوں میں تمہارے سامنے ہوں میرا خاندان تمہارے سامنے ہے تمہارے لئے میری ذات نمونہ عمل ہے ۔
امام حسینؓ نے اس مقام پر واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ظالم حاکم حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو بیت المال کو ضائع کر رہا ہو تو اس کے مقابل کھڑا ہونا ہی حسینت ہے اور یہ کہہ کر امام حسینؓ نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کبھی ایسی صورت حال آئے تو میری زندگی کو دیکھنا جو تمہارے لئے نمونہ عمل ہے ، ہرگز ہرگز ظلم اور ظالمین کے خلاف خاموش نہ بیٹھنا کہ ایسی صورت میں تمہارا ٹھکانہ بھی وہی ہوگا جو ظالمین کا ہے۔
ہمارے تمام سیاسی و مذہبی رہنما اہل دانش ذکر امام حسینؓ کے ساتھ ان الفاظ کو ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں سرکٹا کر حق و صداقت کا علم بلند کیا اور دین اسلام کو تاقیامت جلابخشی، آپؓ کی لازوال اور عظیم قربانی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں دنیا کے تمام مذاہب کے لیے تھی جس کے ذریعے انہوں نے حقیقی امن مساوات برابری اور بھائی چارہ کا درس عام کیا۔ حضرت امام حسینؓ کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی دین و دنیا سنوار سکتے ہیں۔ محرم الحرام ہمیں اخوت اور اتحاد امت کا درس دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم وہ قوم ثابت ہو رہے ہیں جن کے قول و فعل میں بھرپور تضاد ہے۔ جتنی عظیم باتیں اور درس ہم لوگ دیتے ہیں اس کے ذرہ پر بھی عمل نہیں کرتے۔
ہم مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 22فیصد ہیں آٹھ ارب کی آبادی میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔ 57مسلم ممالک ہیں ہمارے کچھ مسلمان دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں مگر کیا وجہ ہے ان میں کوئی بھی نا واقعہ کربلا کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور نہ دین کی اصل روح کو ۔۔۔۔۔ ہم آج تک ایسی قوم نہیں بن سکے جو اپنے ہر معاملے میں دیانتدار ہو، قربانی کی روح کو سمجھتی ہو اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ رکھتی ہو۔ ہم نے واقعہ کربلا سے کچھ سیکھنے کے بجائے اسے صرف ایک تہوار بنالیا ہے۔ سال بھر کیا لوگوں کو پیاس اور بھوک نہیں لگتی۔ کیا سبیلیں سال بھر نہیں لگنی چاہیے کیا سال بھر لنگر خانے آباد نہیں رہنے چاہئیں، کیا سال بھر ذکر حسینؓ نہیں ہونا چاہیے کیا سال بھر مظلوم کی داد رسی نہیں ہونی چاہیے۔ پیغام حسینؓ صرف مخصوص ایام کے لیے نہیں ہے زندگی کے ہر مرحلے کے لیے ہر دن کے لیے ہے۔
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
جس کی گردن پر خنجر چلایا گیا
اس حسین ابن حیدر پر لاکھوں سلام
امام حسینؓ اپنے اہل و عیال اور رفقا کے ساتھ اپنے نانا سے کیا گیا وعدہ وفا اور ذمے داری پوری کرگئے۔ تاریخ منتظر ہے کہ ہم کب بحیثیت مسلمان اپنی ذمے داریوں کا احساس اور اسے پورا کریں گے۔







