Column

باقی ہیر پھیر اے

تحریر : سیدہ عنبرین
اہل پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک امریکہ میں آنے والی حکومت کے بارے میں سوچ بچار اور اپنی پسندیدہ حکومت اور اس کے سربراہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا اور اپنی دعائوں کی قبولیت کیلئے اپنی اپنی پسند کے مطابق اپنی اپنی حیثیت کے مطابق منتیں ماننا اور دعائیں و خواہشیں پوری ہونے کے بعد انہیں ادا کرنا ہے۔
امریکہ میں نومبر میں ہونے والے انتخابات میں نصف پاکستان کے پسندیدہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، ان سے وابستہ ہمارے کئی خواب اور خواہشیں ہیں جن میں ایک یہ ہی کہ ان کے اقتدار میں آتے ہی پاکستان میں بھی اقتدار کسی سے چھن جائے گا اور کسی کو دے دیا جائے گا۔ خوابوں اور خواہشوں پر دنیا بھر میں کہیں کوئی پابندی نہیں ہے لہٰذا جو شخص جو کچھ سوچ رہا ہے یہ اس کا حق ہے یہ حق اس وقت تک حق ہے جب تک ہمارے یہاں اس پر ٹیکس اور اس کے بعد اس پر ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لگایا جاتا، حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ملک کو خود کفیل بنانے کیلئے عام آدمی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے کسی پر بھی کوئی بھی ٹیکس لگا سکتی ہے، احتجاج کرنے والا دہشت گرد سمجھا جائے گا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہونے سے بچ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ہر قسم کی مصیبت سے محفوظ رکھے کیونکہ وہ ہماری امیدوں کا مرکز ہیں، قاتل کی چلائی گئی گولیوں میں سے ایک ان کے کان کو چھوتی ہوئی گزر گئی، قاتل کی اس کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی بھی قاتلانہ حملوں کے حوالے سے اتنے ہی احمق ہیں جتنے پاکستانی۔ سابق امریکی صدور اوباما، ریگن، ٹرومین کینڈی ابراہم لنکن اور بش پر قاتلانہ حملے ہوئے، جن میں سے صرف ابراہم لنکن اور جان ایف کینڈی پر ہونے والے حملے کامیاب تھے۔پاکستان میں سربراہان مملکت پر جو قاتلانہ حملے ہوئے ان میں سے دو حملے کامیاب رہے، وزیراعظم لیاقت علی خان اور جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ جنرل پرویز مشرف پر ایک سے زائد مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے لیکن وہ ان حملوں میں محفوظ رہے، ان پر ایک اور حملہ ہوا جسے قاتلانہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس حملے میں ان کا اقتدار موت کے گھاٹ اتر گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے میں ایک شہری ہلاک ہو گیا لیکن ٹرمپ بچ گئے، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم پر ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا قاتل کی چلائی گئی گولیاں سابق وزیراعظم کے ساتھ ٹرک پر کھڑے ان کے ایک ساتھی کے رخسار کو چھوتی ہوئی گزر گئیں، کچھ گولیاں بعد کی اطلاعات کے مطابق ان کی شلوار میں گھس گئیں لیکن خوش قسمتی سے کسی چیز کو چھوئے بغیر کسی اور طرف نکل گئیں، ٹرمپ کے کان کو گولی نے کس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کی تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئیں۔
ٹرمپ کے سکیورٹی گارڈ بھی اتنے ہی نالائق ثابت ہوئے جتنے ہمارے بعض رہنمائوں کے سکیورٹی گارڈ ثابت ہوئے، وہ فائرنگ کے بعد ٹرمپ کو بچانے کیلئے اس پر لیٹ گئے لیکن ٹرمپ پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار نہ کر سکے جبکہ ہمارے ایک رہنما پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار تو کر لیا گیا لیکن بہت جلد اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔
وائٹ ہائوس کے موجودہ مکین امریکی صدر نے اظہار ہمدردی تو کیا ہے لیکن اس حملے کو قاتلانہ حملہ قرار نہیں دیا، وہ تحقیقات کے بعد اپنی حتمی رائے قائم کریں گے۔ امریکی سیاسی شخصیات احتیاط پسند ہوتی ہیں وہ جلد بازی میں یا بازی لے جانے کے شوق میں اپنی رائے قائم نہیں کرتیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملہ میں بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اسی طرح کا فرمائشی قاتلانہ حملہ ہے جسے پاکستان میں ہوتے ہیں، ان کا مقصد ہدف کو قتل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ہمدردی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ الیکشن کے قریب ایسا واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا دوہرا فائدہ ہوتا ہے، ہمدردی کے ساتھ ساتھ ہمدردی کا ووٹ بھی مل جاتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ ٹرمپ کو ہمدردی کا ووٹ نہ ملنے دے اور ڈھول کا پول کھول دے لیکن اس میں اصل کردار سی آئی اے کا ہو گا۔ دیکھنا ہو گا وہ کیا چاہتے ہیں اور کس کو جتوانے کا فیصلہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایک عینی شاہد کے مطابق اس نے ایک بندوق تھامے شخص کو رینگتے ہوئے دیکھا اس نے ٹرمپ کے گارڈز کو متوجہ بھی کیا لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی گارڈ نی اس شخص پر توجہ نہ دی۔ انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران امریکی ریاست پینسلونیا کے شہر بٹلر میں ہونے والے اس قاتلانہ حملے میں ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی پنجابی فلموں کے سپر سٹار جناب سلطان راہی مرحوم کے ہم پلہ نظر آئے۔ گولی ٹرمپ کے کان کو بوسہ لے کر گزر گئی تو بھی وہ ہوش و حواس میں تھے، انہوں نے کان کو ہاتھ لگا کر دیکھا کہ جان سکیں کان کوئی کتا لے گیا ہے یا ان کے سر کے ساتھ ہی لگا ہے، انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کتا کان لے جانے میں کامیاب نہیں ہوا لہٰذا وہ زمین سے اٹھے، ان کے گارڈز نے انہیں وہاں سے لے جانے کی کوششیں کی تو انہوں نے جواب دیا ٹھہرو ذرا مجھے اپنے جوتے پہننے دو۔ ٹرمپ خوب جانتے کہ اگر وہ جوتے پہنے بغیر بھاگے تو ان کے مخالف کہیں گے کتنا بزدل تھا جوتے چھوڑ کر بھاگا۔ یوں مخالف میڈیا پورے ملک میں ان کے چھتر پریڈ کرتا، ڈونلڈ ٹرمپ نے موت کو اتنا قریب دیکھ کر بھی کسی پریشانی کا اظہار نہ کیا، وہ سلطان راہی سٹائل میں کھڑے ہوئے، انہوں نے مائیک سیدھے کرائے اور مجاہدانہ پیغام کے دو فقرے جاری کئے، انہوں نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جدوجہد جاری رہے گی، انہوں نے اس موقع پر مُکہ بھی لہرایا، جس سے ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، انہیں یقین ہو گیا کہ ٹرمپ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو گئے، یوں موت دوڑ کر فرار ہو گئی۔ اس موقع پر ٹرمپ لورز نے جو کچھ کہا اس کا پنجابی ترجمہ ہے۔ ٹرمپ ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر اے۔
سابق امریکی صدر ریگن اچھے اداکار تھے لیکن ٹرمپ بھی کسی سے کم نہیں، کہتے ہیں ٹرمپ کا ڈسا پانی نہیں مانگتا، ٹرمپ اسی حوالے سے اپنے حلقہ انتخاب میں بہت مقبول ہیں، پاکستان میں برسات کے ساتھ ہیر پھیر کا موسم ہے۔

جواب دیں

Back to top button