Column

جمہوریت اور سیاست

تحریر : آصف علی درانی
اگر دیکھا جائے تو سیاست کے بہت سی کتابوں میں بہت سے معنی دیئے گئے ہیں۔ مختلف ممالک کے حوالے سے سیاست کی ایک تعریف ہوتی ہیں۔ اصل سیاست وہ ہے کہ آپ صحیح معنوں میں بے لوث عوام کی خدمت کریں۔ اس میں سیاستدان کی کوئی لالچ وغیرہ شامل نہ ہو۔ اگر دیکھا جائے تو باہر کے ملکوں میں ہمیں صحیح معنوں میں سیاست نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ سیاست کو بطور سوشل ورک کرتے ہیں اور اگر آپ ان تمام تر سیاستدانوں کو دیکھیں تو وہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی غلطی ان سے ہوتی ہے یا حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ان کا جو عہدہ ہوتا ہے وہ بعض اوقات اس عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیتے ہیں لیکن یہ تو ہم باہر کے ملکوں میں دیکھتے ہیں ۔ اب اگر اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں بات کریں تو یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی سیاست کو جو کہ سوشل ورک یا عبادت کے طور پر باہر کی دنیا میں کی جاتی ہے پاکستان میں اس کو کاروبار کی حیثیت سے کیا جاتا ہے جتنے بھی ہمارے ہاں پاکستان میں سیاستدان آتے ہیں یا ابھی تک آئے ہیں ان سب کا ماضی پاکستانی عوام کے سامنے ہے ۔
اس کے علاوہ اگر جمہوریت کی بات کریں تو سیاست اور جمہوریت کا تعلق گہرا ہے کیونکہ جہاں جمہوریت ہوگی وہاں سیاست ہوگی، اس کے ساتھ وہاں صحافت بھی آزاد ہو، جمہوریت پر باتیں کرنا میرے خیال میں بہت ضروری ہے ۔
جمہوری حکومت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے کہ جس میں طاقت عوام کو دی جاتی ہے، جو اسے براہ راست یا منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر بولنے کی آزادی ، قانون کی حکمرانی اور انصاف وغیرہ جیسے بہت سے بنیادی اصول شامل ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد مجموعی بھلائی کو ترجیح دینا اس کے علاوہ انسانی حقوق کی حفاظت کرنا اور اس چیز کو یقینی بنانا کہ حکمران عوام کی ضروریات کے لیے ہر وقت ذمہ دار رہیں۔
آسان الفاظ میں ، جمہوریت کی بنیاد اس بات پر رکھی جاتی ہے کہ موجودہ حکمران عوام کے ذمہ دار ہوں، اس نظام کی خصوصیات میں شفافیت، احتساب اور حقوق کی حفاظت شامل ہوتی ہیں، جو ایک منصفانہ، برادری والی، اور عدلیہ پسند معاشرے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ جمہوریت ایک ترقی یافتہ معاشرت کی نشانی ہے جو عدلیہ، برابری اور انسانی حقوق کے قدرتی اصولوں کو تسلیم کرتی ہیں۔
سیاست ایک عام معاشرتی فعالیت ہے جس کا مقصد عوام کے مفادات کی حفاظت اور ترقی ہے۔ یہ وہ مجموعہ ہے جو ایک ملک یا ریاست کی حکمرانی کو منظم کرتا ہے اور ملکی معیشت، تعلیم، صحت، امن وامان اور عدلیہ کو مضبوط بناتا ہے۔ اصولی طور پر، سیاست دانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مفادات کو بروقت پورا کریں اور ان کی آرا اور مشکلات کو سنیں۔ سیاست کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ حکمران عوام کے خدمت گزار ہوں، ان کے حقوق کی حفاظت کریں، اور ملکی ترقی اور استحکام کے لیے کام کریں۔
بدقسمتی سے کئی بار سیاست لالچ، طاقت اور شخصی مفادات کیلئے استعمال ہوتی ہے جس سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے سیاست میں انتخابات کے صاف اور شفاف ہونے کی اہمیت ہے تاکہ حکومتیں جو بنیں، عوام کی خواہشات اور مفادات کو درست اور موثر طریقے سے سر انجام دے سکیں۔
سیاست ہمارے معاشرتی، اقتصادی اور سماجی سلسلے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ افراد، جماعتیں اور ممالک کے درمیان رابطے کو تنظیم دینے کا طریقہ ہے۔ سیاست کے مختلف پہلو جیسے حکومتی نظام، قوانین بنانے کا طریقہ، عدلیہ کا نظام، اور اقتصادی ترقیات دینے کا طریقہ وغیرہ معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سیاست کی عملی مثالیں دنیا بھر میں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے کہ حکومتوں کے انتخابات، سیاسی جماعتوں کے تنائو اور مختلف قومی اور ملکی مسائل پر مذاکرات۔ انتخابات سے لے کر موجودہ سماجی اور اقتصادی مسائل تک، سیاست ہر معاشرتی ترقی کے لیے حیاتی اثرات رکھتی ہے۔
سیاست ایک وسیع موضوع ہے جو ہر معاشرتی جماعت کی حیات و موجودگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ وہ عملی فعالیت ہے جس کے ذریعے حکومتی ادارے اور قوانین بنائے جاتے ہیں، عدلیہ کا نظام قائم رکھا جاتا ہے، اور معاشرتی بدلائو کے لیے منصوبے چلائے جاتے ہیں۔
میرے خیال میں سیاست تمام ممالک اور جماعتوں کے لیے ایک ضرورت ہے، جو ان کی معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی تنظیم کو نظام دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ انتخابات کے ذریعے عوام اپنے منتخب نمائندوں کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، جو ان کے مفادات کے لیے قوانین بناتے ہیں اور حکومت چلاتے ہیں۔ سیاسی فیصلے افراد کی زندگیوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
ہر ملک کا اپنا سیاسی نظام ہوتا ہے جو اس کی معاشرتی اور سیاسی ساخت کا تعین کرتا ہے۔ سیاست ہر انسان کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے۔ یہ ایک مشترکہ حقیقت ہے کہ سیاسی تبدیلی، قوانین اور حکومتی فیصلے عوام کی روزمرہ زندگی پر سیدھے اور غیر مستقل اثر ڈالتے ہیں۔ چاہے وہ انکم ٹیکس، تعلیم، صحت، یا معاشی بہبود کے حوالے سے ہو، سیاست کے فیصلے عوامی زندگی کے تمام پہلوئوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سیاست کے ذریعے عوام اپنے حقوق کے حصول، معاشرتی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لیے بھی دبائو میں آ سکتے ہیں۔ حکومتی نظام کی قوت اور کمزوریاں، قانون سازی کی عملیت اور حکمرانوں کی پالیسیاں معاشرتی جڑوں کو بہتر بناتے ہیں یا برباد کرتے ہیں۔
سیاست کی دنیا میں انتخابات، رابطہ اور مذاکرات کا پروسیس جس کے ذریعے حکومتی انتخابات ہوتے ہیں، انتظامی ادارے قائم کئے جاتے ہیں اور سماجی بہتری کے لیے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ سیاست ہمارے معاشرتی اور سماجی نظام کا بنیادی رکن ہے، جو ہمیں انتخابات کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنے، اپنے مفادات کے لیے لڑنے اور ملکی ترقی کے لیے فعال طریقے سے مشغول ہونے کا موقع دیتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر شہری کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے کہ وہ سیاست کے ذریعے اپنے معاشرتی اہداف کو حقیقت میں بدل سکے۔
سیاست کی دنیا میں مختلف جماعتیں اور پارٹیاں ہوتی ہیں، جن کے اپنے مفادات اور نظریے ہوتے ہیں۔ یہ جماعتیں اپنے ارکان کو عوام کے ساتھ منسلک کرتی ہیں، سیاسی پروگرام پیش کرتی ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتی ہیں تاکہ اپنی پالیسیوں کو قومی سطح پر منتخب کریں۔
سیاست ہر چیز کو متاثر کرتی ہے، چاہے وہ ملکی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر مثال کے طور پر مختلف ممالک کے درمیان معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تبادلے سیاست کی ہدایت میں ہوتے ہیں۔ سیاست اقتصادی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہے، جیسے کہ حکومتی بجٹ، ٹیکس پالیسیز اور مالیتی قوانین کے ذریعے۔ حکومتی فیصلے اور سیاسی ترتیبات ملک کی معیشت اور امور کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔
سیاست عوامی دلچسپی کا بھی ذریعہ ہوتی ہے، جیسے کہ انتخابات اور عوامی مسائل پر آراء ظاہر کرنا۔ عوامی دبائو اور مطالبات سیاسی نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی روشنی میں سیاستدانوں کو اقدامات کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
مختلف ممالک کے درمیان سیاسی تنازعات جو بین الاقوامی سطح پر سیاست کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں۔
سیاست مختلف سیاسی جماعتوں یا نظریات کے درمیان گہرے فرق پیدا کرتی ہے، جو تفرقہ انگیزی اور مایوسیاں پیدا کرتی ہیں جہاں مفاہمت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جب ایک دوسرے کے ساتھ حمایت نہیں کر سکتیں، تو قانون سازی کے دوران بے حرکتی پیدا ہو سکتی ہے، جس سے اہم قوانین کو منظور کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان جماعتی تنائو کی وجہ سے ایک ایکو چیمبرز بھی پیدا ہو سکتی ہے، جہاں افراد صرف ان معلومات کو حاصل کرتے ہیں جو ان کے موجودہ عقائد سے مطابقت رکھتی ہیں، جس سے تفرقہ انگیزی اور تبادلہ خیال کی سمجھ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سیاست دان اپنے ذاتی فائدے کے لیے طاقت کا ناجائز استعمال کر سکتے ہیں، جیسے رشوت یا مخصوص اہم مفاد کی طرف سے دوستوں یا خاندانی افراد کو سیاسی تعیناتی یا کاروباری معاملات میں فائدہ دینا مروج کر سکتا ہے۔، جو استحقاق اور منصفانہ مسابقت کو ختم کر سکتا ہے۔ عوامی فنڈز کو ذاتی استعمال کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ یہ عوامی فلاح کا مقصد ہونا چاہیے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے)
بائسڈ میڈیا اور اس کے سیاست سے تعلقات ایک پیچیدہ اور تنازعاتی مسئلہ ہے جو عوامی فہم، سیاسی مباحثے اور جمہوری عملوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ میڈیا کے جانبدار ہونے کا مطلب ہے کہ معلومات کی پیشکش میں نسبتی تعصب ہوتا ہے، جہاں کچھ نقطے یا مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے یا دوسرے نقطے یا مفادات کو کم توجہ میں رکھا جاتا ہے، عموماً کسی خاص سیاسی منصوبے یا نظریے کو حمایت دینے کے لیے ہوتا ہے۔ بائسڈ میڈیا عوامی رائے کو شکل دے سکتا ہے، چونکہ یہ ان معلومات کی منتخب پیشکش کرتا ہے جو موجودہ تصورات کو مضبوط بناتی ہے اور اس سے مختصر تحمل کے لحاظ سے فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے اس نقطہ نظر میں مختلف اور غلط معلومات یا غلط معلومات کے پھیلائو کی سہولت ہو سکتی ہے، کیونکہ اجتماعی یا واقعات کی معقول تشریح پوری طرح ایک توازن دار دکھائی دی سکتی ہے۔ اس کی تشکیل میں جمہوری اقدار میں آزاد اور بغیر تعصب کے میڈیا کی اہمیت ہے، حکومت اور سیاستدانوں کو جوابدہ کرنے کے لیے عوام کو معقول معلومات فراہم کرنے میں شہرت حاصل ہوتی ہے۔ میڈیا کے بائسڈ ہونے سے اختلافات میں زیادہ تر تیزی اور ایک تفرقہ ورانہ چیز کی سمت بنا سکتی ہے جو سیاسی اختلافات میں بڑھتے ہوئے سیاسی تبادلہ کی بھی بنیاد ہوسکتی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے درمیان تعلق گہرا اور جامع ہے، جو عوامی رائے، پالیسی بنانے اور حکومتی گورننس کے انداز کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا سیاسی اداروں اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے، حکومتی پالیسیوں، سیاسی واقعات اور انتخابی عمل کی معلومات شہریوں کو فراہم کرتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا کے اضافے نے میڈیا اور سیاست کے درمیان تعلقات کو انقلابی طور پر بدل دیا ہے۔ یہ ان سیاستدانوں اور شہریوں کے درمیان سیدھے تعلقات، مشکلات اور انحصار کے لیے اہم آلات فراہم کرتے ہیں، جو میڈیا پلیٹ فارمز کو اہم بنا دیتے ہیں۔ ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز سیاسی اشتہارات اور موبائلائزیشن کے لیے نہایت ضروری آلات ثابت ہوئے ہیں۔ سیاسی شخصیات اب ان پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں اپنے پیغامات کو فوراً اور بلا واسطہ طور پر پہنچا سکتی ہیں اور عوام کی رائے اور حسنِ نظر کو موجودہ مسائل پر تبدیل کرنے کے لیے انہیں موبائلائز کر سکتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی اس شفافیت اور فوریت نے سیاسی مناظر کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اب سیاستدانوں کو اپنے انتخابی وعدوں کی پیروی کرنے کے لیے نئے اور مستقل دبائو کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ شہریوں کو اپنے رہنمائوں کو حساب دینے اور ان سے مواقع کرنے کا انحصار ہے۔
یہ تبدیلی، جو سوشل میڈیا کی دنیا نے میڈیا اور سیاست کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے بنائی ہے، اب سیاسی فعالین اور عوام کے درمیان بات چیت، تعلقات اور تاثرات کے لیے ایک نیا ماحول فراہم کر رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button