انصاف اور تشریح

محمدمبشر انوار( ریاض)
زمانہ جاہلیت کی جو تصویر تاریخ ہمارے سامنے رکھتی ہے اس میں ،جس کی طاقت اس کی بھینس،کا اصول ہر جگہ واضح نظر آتا ہے کہیں پر بھی کوئی اصول یا ضابطہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا ۔تاہم جیسے جیسے معاشرہ آگہی و شعور کی منزلیں طے کرتا ہے، زندگی گزارنے کے اصول وضع ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور معاشروں میں ان اصول و ضوابط اور قوانین کی اہمیت نظر آتی ہے۔ ان قوانین کی موجودگی میں بنی نوع انسان قدرے سکون کے مراحل طے کرتا دکھائی دیتا ہے اور معاشروں میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ حقوق کی پاسداری بھی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود خوئے اختیار و اقتدار کی جبلت بدستور رویوں میں باقی ہے۔ اس جبلت کے باعث انسان نے ہر زمانے میں اختیار و اقتدار حاصل کرنے کے نئے طریقے ،راستے اختیار کئے رکھے تا کہ اپنی خوئے اقتدار کی جبلت کو پورا کر سکے، اس کی تسکین کر سکے،اس کی خاطر اسے ہر مرتبہ مروجہ اصول و ضوابط و قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہی دیکھا گیا ہے کہ قوانین کی پاسداری میں حضرت انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی جبلت کی تسکین کر سکے یا اختیار و اقتدار حاصل کر سکے ۔بآلفاظ دیگر یہ آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہر دور میںہی انسان اپنی طاقت کا اظہار کرنے سے نہیں چوکا اور طاقت کا ازلی قانون ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس،ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں روبہ عمل دکھائی دیتا ہے ،خواہ اس پر کسی بھی طرح کا پردہ ڈالا گیا ہولیکن اس کی شکل بہرطور سات پردوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔یہی صورتحال آج بھی کرہ ارض پر دکھائی دے رہی ہے کہ ایک طرف غزہ میں بظاہر طاقتور اپنی بدترین شکل میں نسل کشی کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ،جسے زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے،اس کا شکار ہے تو تیسری طرف یوکرین کو بھی اس سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا کہ طاقتوروں نے بزور ان خطوں کے شہریوں کو زمین پر ہی جہنم میں دھکیل رکھا ہے۔اقوام عالم و اقوام متحدہ ان طاقتوروں کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ سوائے گلے پھاڑنے یا مذمت کرنے ،عملا کچھ بھی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ فی الوقت عالمی طاقتوں کو یہاں امن فراہم کرنے ،انصاف مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی یہ ان کے مفاد میں ہے لہذا اقوام متحدہ ہو،سیکیورٹی کونسل ہو، عالمی عدالت انصاف ہو یا عالمی عدالت جرائم ہو،ان کی قراردادیں،فیصلے،ظالم و جابر پر لاگو ہونے سے قاصر ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہو یا خودساختہ مہذب قوموں کے معاشرے میں جانوروں کے حقوق پر آسمان الٹ دینے والی تنظیمیں،ان کا شوروغوغا کسی کے کان میں پڑتا سنائی نہیں دے رہا اور غزہ میں بے بس و بے کس و مجبور انسانوں کا خون،مسلسل خاک میں مل رہا ہے۔ غزہ کے مسلمان بظاہر تہ تیغ ہو رہے ہیں اور دنیا کی ایک چوتھائی مسلم آبادی کی بے بسی کا نظارہ ساری دنیا بخوبی کررہی ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ درحقیقت غزہ کے مسلمان ہی قوم کے زندہ مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں اور بظاہر باقی مسلم آبادی مردوں کی نمائندگی کرتی دکھائی دے رہی ہے کہ یہی دین اسلام کا سبق ہے،جسے آج امت فراموش کئے بیٹھی ہے۔
بعد از اسلام ،دنیا دو قومی نظرئیے میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس تقسیم کی بنیاد صرف اور صرف ایک نقطہ پر ہے کہ ایک طرف ایمان والے اور دوسری طرف ایمان سے عاری ،اسی پر روز آخرت سب کا حساب ہو گا۔ قبل از اسلام کی تاریخ دیکھیں تو چند ایک مستثنیات کے،یہ حقیقت واضح ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کس طرح کی جاتی تھی،ظلم و جبر و ناانصافی کا بازار گرم تھا ،طاقتوروں کے جرائم سے منہ موڑ لیا جاتا تھا جبکہ بے کس و بے بس کے لئے سخت ترین سزائیں موجود تھی،اشرافیہ کی عیاشیوں کے لئے رعایا کی قربانیاں عام تھی جبکہ بعد ازاسلام،اصول مساوات نے ہر شخص،ہر انسان کے حقوق کی ضمانت مہیا کی اور یوں خلق خدا جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔بعد ازاںاسلام کے آفاقی مساواتی اصولوں کی بنیاد پر ہی ،آج کی خودساختہ مہذب اقوام،انہی آفاقی اصولوں کی بنیاد پر اپنے معاشروں کو استوار کر کی،انسانیت کی معراج پر پہنچ چکی ہیں اور اسلامی اصولوں کی تبلیغ آج مسلم حکمرانوں کو کرتی دکھائی دیتی ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پس پردہ ان کی نیت قطعا اصلاح احوال کی نہیں بلکہ ان کی شدید خواہش یہی ہے کہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو غفلت میں رہنے دیا جائے لیکن بظاہر ان کو یہ باور کرواتے رہیں کہ ان کی ترقی و خوشحالی کا راز کہاں ہے؟اس میں بھی ایک طرف ان کے وسائل کو اینٹھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے تو دوسری طرف انہیں تحقیق و جدید علوم سے دانستہ دور رکھ کر ،ان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیںجبکہ دفاعی اعتبار سے تو انہیں بالکل بھی خودکفالت کی طرف نہیں جانے دیا جاتا بلکہ ان کے نامور سائنسدانوں کو اچکنے یا اچکنے پر ناکامی پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔
بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ قوانین بنانے کے بعد،ان پر عملدرآمد کروانا ایک اہم ترین مسئلہ ہے بالخصوص اس وقت جب کوئی تنازعہ پیدا ہو جائے ،تب عدالتوں کا کردار سامنے آتا ہے اور عدالتیں قوانین کے مطابق ہی اس تنازعہ کا حل کرتی ہیں اور انتظامیہ کی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس پر عمل درآمد کروایا جائے۔یہاں ’’ نیت‘‘ کی حقیقت کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی معاملہ میں نیت کا کردار بنیادی او ر اہم ترین ہوتا ہے ،عدالتیں معاملہ طے کرتے وقت نیت کو کم ہی نظر انداز کرتی ہیں کہ تنازعات میں نیت کا تعین کئے بغیر حل نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کئے جا سکتے۔مثلا قتل عمد اور قتل خطا،اس کو بہتر طریقے سے واضح کر سکتے ہیں کہ حالات و واقعات کی روشنی میں عدالتوں کے لئے حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور انہیں فیصلہ کرنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کہ قتل کن حالات میں ہوا،آیا قتل کرنے کے لئے باقاعدہ وجہ موجود تھی یا نہیں،اگر قتل کرنے کی وجہ موجود ہے،پس پردہ نیت موجود ہے تو اسے قتل عمد تصور کیا جاتا ہے بصورت دیگر اسے قتل خطا تصور کیا جاتا ہے اور دونوں جرائم کی سزا مختلف ہے۔ایسے ہی ایک ریفرنس کا فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں دیا ہے جس میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف عدالتی ٹرائل میسر نہ ہونے کا فیصلہ دیا گیا ہے جو دی جانے والی سزا پر ناانصافی کی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ درحقیقت اس ریفرنس میں دو چیزیں عدالت عظمیٰ کی طرف سے بیان کی گئی ہیں کہ ایک تو ٹرائل شفاف و منصفانہ نہیں تھا اور شفاف ٹرائل کی عدم موجودگی میں انصاف کیسے ہو سکتا ہے؟ مراد یہ ہے کہ عدالتوں کے سامنے آنے والے مقدمات /تنازعات کا فیصلہ کرتے وقت اس حقیقت کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ٹرائل شفاف ہو،غیر جانبدار ہواور انصاف کی فراہمی یقینی ہو،سوال یہ ہے کہ ان عناصرکی عدم موجودگی میںکیا عدالتیں اپنے فرائض منصبی سے کماحقہ عہدہ برآء ہو سکتی ہیں؟اسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں مقننہ کا بنایا گیا کوئی بھی قانون ،اس کے بالادست ہونے کے باعث من و عن قبول کیا جا سکتا ہے؟بالخصوص اس صورت میں جب عالمی سطح پر اورمقامی سطح پر قوانین بناتے وقت کچھ امور کو مد نظر رکھنا ضروری ہو،مثلا آئین پاکستان کہتا ہے کہ ملک میں قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں ،جس کو تقویت دورجدید میں جیورس پروڈنس اس طرح فراہم کرتی ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے پر قرارواقعی سزا دی جائے،اس صورتحال میں مقننہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے،بنیادی روح کے برعکس قوانین بنا سکتی ہے؟جیسا نیب ترامیم میں ہوا ہے کہ مقننہ میں ایسے افراد بیٹھے ہیں جن پر نیب کے مقدمات ہیں اور انہوں نے ایسی ترامیم کردی ہیں کہ نیب کسی بھی صورت ان کے خلاف متحرک نہیں ہو سکتا،کیا ایسی ترامیم کو ،نیت کو جانچے بغیرمن و عن قبول کیا جا سکتا ہے؟یہی صورتحال اس وقت بھی عدالت عظمی کے سامنے ،مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں ہے جہاں الیکشن کمیشن نے ارادتا،تحریک انصاف کو سیاسی عمل میں دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش میں ناکامی کے بعد،آئین میں دی گئی مخصوص نشستوں سے محروم رکھنے کی کوشش کی ہے،کیا عدالت پس پردہ نیت جانے بغیر ،غیر متعصبانہ و مفادات کو بروئے طاق رکھتے ہوئے،اس کا فیصلہ کرے گی یا ماضی کی طرح ،حالات کے مطابق کوئی فیصلہ سنائے گی؟بالفرض اگر فیصلہ قانون کی الفاظ کے مطابق دیا جاتا ہے تو کیا عدالت انصاف کر پائے گی؟جبکہ تاریخ و قانون کا ایک ادنی طالبعلم ہوتے ہوئے،میری یہ ناقص رائے ہے کہ عدالت کا فرض منصبی فقط بنے ہوئے قانون کی تشریح نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی ہے،کیا عدالت عظمی انصاف اور تشریح کرتے ہوئے ،قانون کی نوک پلک درست کرنے کے اختیار سے دو قدم پیچھے ہٹ جائے گی؟
نوٹ۔مخصوص نشستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کور ٹ کے فل بینچ نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہوئے، مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے کر نہ صرف انصاف فراہم کیا ہے بلکہ آئین کی تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اختیار کا تعین بھی کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد کیا چیف جسٹس اخلاقی طور پر ازخود پی ٹی آئی یا عمران خان کے مقدمات سے الگ ہو جائیں گے؟





