Column

دو دن ۔۔۔۔۔ دو فیصلے

صفدر علی حیدری
دو دنوں میں دو فیصلوں سے ملکی سیاست میں زلزلہ سا آ گیا ہے ۔ مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف جشن منا پائے تھے نہ ان کے مخالفین اپنا احتجاج ریکارڈ کروا پائے تھے کہ عدت کیس کا فیصلہ بھی آ گیا ۔ تحریک انصاف پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہے جب کہ حکمران جماعت سکتے میں آ گئی ۔
پاکستان ایک عجیب ملک پر جہاں پر سیاست دان اپنی ہر لڑائی عدالتوں میں لڑتے ہیں ۔ اس سے صرف یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کا پورا جڑ سے ہل جاتا ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں انصاف اول تو ملتا نہیں ، اور مل بھی جائے تو اتنا تاخیر سے ملتا ہے کہ جب اس کی افادیت صفر ہو چکی ہوتی ہے ۔ وہاں سیاسی معاملات میں فل بنچ بنا کر عدالت عدالت اور وکیل وکیل کھیلا جاتا ہو ، وہاں انصاف کی امید اس سے بھی کم رہ جاتے ہے جتنا ہماری عوام کو اعلیٰ عدلیہ سے ہے ۔ اب آتے ہیں عدت کیس کی طرف، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کر لیں ۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو کیس سے بری کرنے کا حکم دے دیا ۔عدت نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج افضل مجوکا نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا ۔ اپیلیں منظور ہونے پر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیئے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اگر کسی دوسرے مقدمی میں گرفتار نہیں ہیں تو رہا کر دیا جائے ۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے رہائی کے روبکار جاری کر دئیے ہیں ۔
گزشتہ برس سول جج قدرت اللہ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو 7، 7سال قید اور 5،5لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔
فیصلے سے قبل کمرہ عدالت صحافیوں اور وکلا سے کھچا کھچ بھر گیا اور پولیس کی جانب سے کمرہ عدالت سے پی ٹی آئی کارکنان کو باہر نکالا گیا ۔ پولیس نے صحافیوں اور وکلا کو کمرہ عدالت میں موجود رہنے کی ہدایت کی گئی ۔قبل ازیں خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف ایڈووکیٹ اور عمران خان کے وکیل عمران صابر، مرتضیٰ طوری، زاہد ڈار عدالت میں پیش ہوئے ۔
ٹرائل کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے وکلاء کی جانب سے گواہ لانے کا کہا گیا ۔ وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اگر گواہ لانا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ عدالت کسی بھی وقت شواہد لے سکتی ہے ۔ وکیل زاہد آصف نے دلائل دئیے کہ کسی بھی پارٹی سے ان کے فقہ کے بارے میں نہیں پوچھا گیا ، مفتی سعید نے بھی نہیں کہا کہ ملزمان حنفی فقہ سے ہیں ۔ سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ان کے کلائنٹ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے شادی کی ہے ۔ انہیں عدت کے بارے میں علم نہیں ، ایک ملزم دوسرے ملزم پر ملبہ ڈالتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا یہ وہ بھی شریک جرم ہے ۔ ایسی وفادار عورت جو اس وقت شوہر کے ساتھ کھڑی ہے ، خاوند کہتا ہے میرا تو کوئی قصور ہی نہیں ، بیوی ساری آسائشیں چھوڑ کر شوہر کے لیے جیل چلی جائے اور شوہر اسی پر ملبہ ڈال دے ۔ خاور مانیکا کے وکیل نے دوران دلائل علامہ اقبالؒ کا شعر سنا دیا ۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے بیان کو آپ اس کے خلاف کیسے استعمال کر سکتے ہیں ۔ شرعی تقاضے پورے کرنے کا ذکر تو کیا گیا ہے اس بات پر میں بھی آپ سے اختلاف کروں گا کہ آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی بات کی امید نہیں تھی ۔ وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اختلاف کرنا سب کا حق ہے اور آپ بھی اختلاف کر سکتے ہیں ۔ گل ایڈووکیٹ نے کہا کہ مانیکا 342 کے بیان میں سوال نمبر دو میں بشریٰ بی بی کا بیان موجود ہے ۔ وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ اعتراض اٹھایا گیا کہ طلاق نامہ کی فوٹو کاپی عدالت پیش کی گئی ، قانون شہادت میں لکھا گیا کہ کاپی کی بھی کاپی قابل قبول ہوگی ، ٹمپرنگ کا الزام لگایا گیا ، اس کو چیک کرایا جا سکتا تھا ۔ وکیل خاور مانیکا نے کہا کہ 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ لندن پلان کا حصہ ہے ، بانی پی ٹی آئی نے 342 کے بیان میں لمبی تفصیل دے دی ، جج افضل مجوکا نے کہا کہ کیا اس کا سرٹیفیکیٹ موجودہے ؟ جب ملزم بولے گا تو جج سرٹیفکیٹ دے گا یہاں چارج کے نیچے سرٹیفکیٹ موجود نہیں ہے ، جج افضل مجوکا نے عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بھی اس پر دلائل نہیں دیے؟ جج افضل مجوکا نے خاور مانیکا کے وکیل سے استفسار کیا کہ جو پوائنٹ اٹھایا گیا ہے اس پر آپ ریمانڈ بیک کرانا چاہتے ہیں آپ اس پر کھل کر کہہ رہے ہیں ۔عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی ہم دوبارہ گواہ پیش کر دیں گے ۔ ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی تعمیل کروانا چاہتے ہیں۔وکیل خاور مانیکا نے اپنے دلائل میں کہا کہ شوہر فوت ہو جائے تو بیوی کی عدت 4 ماہ ہو گی ۔ ایک بار تین طلاقیں دی ہوں تو ایک طلاق تصور ہو گی ۔ شکایت کنندہ نے جب حلف لے کر بیان دیا کہ وہ رجوع کرنا چاہتے تھے تو ان کی ایک طلاق تصور ہو گی ۔ میں نے تو کسی جگہ نہیں کہا کہ میں فقہ حنفیہ یا شافعی کا ماننا والا ہوں ۔ میں نے تو مسلمان ہونے کے ناطے شکایت درج کرائی ہے ، انصاف اسلام کے مطابق چاہیے ۔خاور وکیل خاور مانیکا نے کہا کہسپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ جب تک عدت کا دورانیہ پورا نہیں ہوتا وہ طلاق دینے والے شوہر کی بیوی ہی تصور ہو گی ۔ 2019 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا جس میں لکھا کہ عدت کا دورانیہ90دن تصور کیا جائے گا ۔ خاتون عدت کے دوران دوسری شادی کرے گی تو وہ ایک وقت میں دو نکاح میں ہو گی ۔ ان کی طرف سے 14نومبر کی طلاق کو چیلنج نہیں کیا گیا ۔
سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ چیئرمین یونین کونسل کو نوٹس جاری نہ کرنا کوئی اور جرم ہو سکتا ، فراڈ نہیں ہوسکتا ، طلاق کا نوٹس خاور مانیکا نے نہیں دیا تو 90دن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مسلم فیملی لا کے سیکشن 7 کو پڑھا ہے اس میں لکھا ہے کہ نوٹس لازمی شرط نہیں ہے ۔ ان کی بات مان بھی جائے تو بھی قانونی ڈیفیکٹ کہا جا سکتا ہے ، فراڈ شادی نہیں کہا جا سکتا ۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سزا کی خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی ۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔ انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دئیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے ، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی ۔بہر حال دو دنوں میں دو کیسوں نے ملکی سیاست میں جو بھونچال پیدا کیا اور اس سے جو گرد اڑے گی وہ بہت کچھ دھندلا دے گی ۔ اگر سیاسی جماعتوں نے مل جل کر کام کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تو حالات مزید ابتری کے رخ پر جائیں گے ۔
سیاسی لڑائی میدان سیاست میں لڑی جاتی ہے نہ عدالتوں میں ۔ اگر یہ روش ترک نہ کی گئی تو اس سے ملک کی نہ صرف جگ ہنسائی ہو گی بلکہ ملک تنزلی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔
فیصلوں کو تسلیم کیا جائے۔ اس روش کو اب ختم ہو جانا چاہیے کہ آپ کے حق میں فیصلہ ہو تو بلے بلے ہو جاتی ہے ۔ جیتنے والی پارٹی اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتی ہے تو ہارنے والی اسے ملکی تاریخ کا تاریکی دن۔

جواب دیں

Back to top button