CM RizwanColumn

پی ٹی آئی پارہ پارہ ہو جائے گی؟

سی ایم رضوان
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے 13رکنی فل بنچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر نو سماعتوں کے بعد فیصلہ کیا سنایا گویا ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلوں کی ایک نئی نظیر پیش کر دی۔ جس پر من مرضی کے تبصرے اور مختلف خیالات سامنے آنا فطری امر ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روک سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پندرہ روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔ سپریم کورٹ کے 13ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جبکہ پانچ نے اختلاف کیا۔ چیف جسٹس کے مطابق فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے ہنگامی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فل کورٹ نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں پر حق و انصاف پر مبنی فیصلہ دیا ہے اور آخر کار ہمیں اپنا حق مل گیا ہے۔ آج جمہوری قوتوں کے لئے خوشی کا دن ہے۔ عوام نوافل ادا کریں اور رب کا شکر ادا کریں۔ اس فیصلے کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کمال دور اندیشی سے انہوں نے احتیاطاً یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی میں کوئی گروہ بندی نہیں ہے۔ کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے۔ پی ٹی آئی متحد ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے حد درجہ کنفیوعن اور سوالات کو جنم دیا ہے۔ پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی اور نہ ہی اس نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیا تھا لیکن بادی النظر میں ریلیف تحریک انصاف کو دیا گیا۔ وزیرِ قانون نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوسری طرف موجودہ دور کے تابناک مستقبل کے حامل سیاسی رہنما فیصل واوڈا نے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوگا۔ چند دنوں میں اپوزیشن کے مزید ٹکڑے ہو جائیں گے کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی۔ فیصلے کے 15دن بعد پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنے گا۔ اس کیس میں جو استدعا کی ہی نہیں کی گئی اس پر بھی فیصلہ آ گیا ہے۔ میرے خیال میں آئین کو دوبارہ لکھا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف پارٹی کے بنیادی سٹرکچر، مرکزی اور پرائمری عہدوں اور قابل ذکر پارٹی کمان نہ ہونے کے باعث دو سو سے زائد ارکان پارلیمنٹ رکھنے والے اس سیاسی گروہ کو گروہ در گروہ ہونے سے بچایا جا سکتا یا کہ فیصل واوڈا کی پیش گوئی کے مطابق عنقریب یہ جماعت پارہ پارہ ہو جائے گی۔ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ایک ہفتہ قبل بانی پی ٹی آئی نے پارٹی رہنماوں میں اختلافات سے متعلق جواب دیا تھا کہ کل مجھے اپنی ٹیم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اگر ملاقات ہوتی تو میں یہ اختلافات ختم کروا دیتا۔ سابق وزیر اعظم نے گزشتہ جمعہ کے دن صحافیوں سے گفتگو میں یہ جملہ بول کر تحریک انصاف میں اختلافات کی خبروں پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی تھی جبکہ اس سے قبل جمعرات کے دن تحریک انصاف کے متعدد رہنما اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے لئے پہنچے تو انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں اختلافات کی ان خبروں کی تردید کی جو گزشتہ کئی دنوں سے سامنے آ رہی تھیں۔ ان خبروں کے بعد ہی بانی پی ٹی آئی نے چند رہنمائوں کو ملاقات کے لئے طلب کیا تھا کہ وہ ان اختلافات کو خود ہی دور کریں گے۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے بانی کو جیل میں تقریباً ایک برس ہو چکا جس دوران جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ متاثر ہونے، سیاسی قیادت میں تبدیلی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ سمیت کئی عوامل اختلافات کی وجہ بنے ہیں۔ اس عرصے میں جہاں کئی سیاسی رہنما تحریک انصاف کو خیرباد کہہ گئے وہاں کئی اہم رہنما نو مئی کے واقعے کے بعد گرفتاریوں، مقدمات سے بچنے کے لئے روپوش بھی ہوئے اور مستعفی بھی ہوئے اور ایک نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پھر عام انتخابات کے بعد کئی روپوش رہنما بھی منظر عام پر آ گئے جن میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی شامل ہیں۔ اس دوران اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔
ماضی میں پارٹی چھوڑ کر جانے والے فواد چودھری حال ہی میں منظرِ عام پر آئے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جماعت کے اندر رسہ کشی مزید شدت اختیار کر گئی ہو حالانکہ یہ اختلافات نئے نہیں۔ جن کی موجودگی شہریار آفریدی نے گزشتہ مہینے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کی تھی کہ پارٹی کے اندر اس وقت کچھ منافق اور آستین کے سانپ موجود ہیں۔ ان کے اس بیان پر ناراض رہنما شیر افضل مروت بھی موجودہ قیادت کے خلاف بول پڑے اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دی۔ ابھی یہ بیان بازی چل رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چودھری نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ بیرسٹر گوہر، مرکزی ترجمان رئوف حسن، شبلی فراز اور وکیل رہنما حامد خان نے کبھی سیاست کی ہی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی اور اسد قیصر ایسی شخصیات ہیں جو پارٹی کی قیادت کر سکتے ہیں۔ موجودہ قیادت کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی 13 مہینوں سے جیل میں ہیں۔ فواد چودھری کے بیانات پر پی ٹی آئی کے موجودہ قائدین ناراض نظر آئے اور ان کی کور کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ قرار داد پیش کی کہ فواد چودھری سمیت پارٹی چھوڑ جانے والے تمام افراد کو پارٹی میں دوبارہ خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے اس دوران پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے اپیل کی کہ وہ پارٹی قیادت پر تنقید نہ کریں۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے کہا کہ چند لوگ پارٹی کو اندر سے تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے سابق پارٹی رہنما عمران اسماعیل اور فواد چودھری کا نام بھی لیا۔ تاہم رئوف حسن کے مطابق تحریک انصاف میں یہ کلچر رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ہر کسی کو ملاقات کے لئی دستیاب ہوتے تھے اور وہ سب کی بات سن کر معاملہ حل کر دیتے تھے مگر اب صورتحال ایسی نہیں رہی، جس وجہ سے کچھ چیلنجز نے سر اٹھایا۔ اس وقت پارٹی کے بہت کم تعداد میں رہنمائوں کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے پارٹی میں کچھ اختلافی آوازیں بھی اٹھیں کہ آخر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہر ممکن کوشش کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ دوسری جانب شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ پارٹی کے اندر اختلافات سے متعلق جس طرح لوگوں نے کہانیاں بنائی ہیں یہ درست نہیں۔ ان کے مطابق رائے کا اختلاف اپنی جگہ مگر پارٹی میں کسی قسم کی کوئی گروپنگ یا تقسیم نہیں پائی جاتی ہے۔ یہ اختلاف ایسے ہی ہے جیسے کسی گھر میں بہتری کے لئے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے استعفے کی بات نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ یہ میری آخری تقریر ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف جب برسر اقتدار تھی تب بھی اس جماعت کے لئے ڈسپلن ایک مسئلہ رہا اور اس طرح کے معاملات تحریک انصاف کے اندر بہت نمایاں تھے اور ایسے اختلافات پر حکومت میں ہوتے ہوئے بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور اب جو پارٹی میں اختلافات اور گروپنگ نظر آ رہی ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ اب پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس پارٹی پر ہر نوعیت کی اور ہر طرف سے انجینئرنگ ہو رہی ہے اور اس پارٹی میں چونکہ زیادہ تر لوگ ادھر ادھر سے لائے گئے ہیں ان میں سے اکثر بڑے گھر کے بھی پروردہ ہیں اس لئے اب یہ سوال خاص طور پر اس صورت میں بھی بڑا اہم ہو گیا ہے کہ اب چونکہ یہ قومی اسمبلی میں ایک بڑی پارٹی بن گئی ہے تو کیا اب اسے توڑنے اور تقسیم کرنے کی زیادہ منظم، موثر اور یقینی کوشش تو نہیں کی جائے گی اور کیا جس طرح نو مئی کے بعد پریس کانفرنسز کر کے یہ لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے تھے کیا مستقبل قریب میں اب اس کے ٹوٹنے کی خبریں یہ رہنما خود اپنی زبانوں سے سنایا کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button