سانحہ نو مئی، ٹرائل اور ملاقاتیں

امتیاز عاصی
نو مئی کو جو ہوا علیحدہ کہانی ہے ملزمان سے ان کے لواحقین سے ملاقاتوں کی بھی الگ داستان ہے۔ عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے مقدمہ کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ہے۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہو چکی ہے ایک سال سے زیادہ عرصہ سانحہ کو ہو چکا ہے ملزمان زیر حراست ہیں۔ ملزمان کے وکلاء نے عدالت کو بتایا جب ملزمان سے ان کے لواحقین کی ملاقات کرائی گئی تو ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے ہوئے تھے۔ سعودی عرب میں ہم نے دیکھا ہے پولیس کسی کو گرفتار کرتی ہے تو ان کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیئے جاتے ہیں۔ نہیں معلوم آرمی ایکٹ میں ملزمان سے ان کے لواحقین سے ملاقات کی اجازت ہے یا نہیں البتہ آئین اور قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا ملزمان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات نہ کرائی جائے۔ جیل مینوئل میں ایسے مجرم جنہیں موت کی سزا ہو چکی ہوتی ہے ہفتہ میں ایک بار ان کے گھر والوں سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ جہاں تک اس ناچیز کی ناقص معلومات کا تعلق ہے سانحہ نو مئی کے ملزمان کاجرم ایسا نہیں جس میں انہیں موت کی سزا دی جا سکے ۔ عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت ملزمان کے وکلاء نے اس بات کی شکایت کی ملزمان سے ان کے لواحقین کی ملاقات نہیں کرائی جا رہی ہے۔ معروف صحافی حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کا شکریہ ادا کیا ان کے حکم پر ان کے بیٹے سے صرف ایک مرتبہ ملاقات کرائی گئی ہے۔ عدالت کو ابھی تک اس بات سے بے خبر رکھا گیا ہے سانحہ میں ملوث کتنے ملزمان کو رہائی ملی ہے۔ یہ بات درست ہے نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سانحہ میں گرفتار ملزمان کا تعلق ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سے ہے بہت سے لوگوں کو شبہ میں حراست میں لیا گیا تھا جنہیں کوٹ لکھپت جیل میں کئی ماہ تک شناخت پریڈ کی غرض سے رکھا گیا ۔ شناخت پیریڈ کے سلسلے میں گرفتار ملزمان کی ملاقات اس لئے نہیں کرائی جاتی کیونکہ انہیں ایک ہی لباس میں کسی جج یا مجسٹریٹ کے روبرو شناخت پیریڈ کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ شناخت پیریڈ کے لئے رکھے گئے افراد کو جب تک شناخت پیریڈ کا عمل مکمل نہ ہو کسی کی سامنے نہیں لایا جا سکتا بلکہ انہیں دوسرے ملزمان سے بالکل علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ شناخت پریڈ ایک ایسا عمل ہے جس میں ملزم کی شناخت نہ ہو تو انہیں رہائی مل جاتی ہے۔ عجیب تماشا ہے معمولی سا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا پی ٹی آئی کے مطالبے کے باوجود سانحہ کی غیر جانبدرانہ انکوائری کے لئے نہ تو کوئی ٹربیونل نہ کوئی کمیشن قائم کیا جا سکا ہے۔ آئین ہر شہری کو انصاف کا حق دیتا ہے قرین انصاف تو یہی تھا سانحہ کے حقائق تک پہنچنے کے لئے کمیشن قائم کیا جاتا جس سی سانحہ کے پس پردہ محرکات کا پتہ چل جاتا ۔
طرفہ تماشا یہ ہے ملزمان کے لواحقین اس بات سے لاعلم ہیں ملزمان کو کہاں رکھا گیا ہے ؟ سوال ہے کیا آئین ایسے اقدامات کی اجازت دیتا ہے ملزمان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات نہ کرائی جائے۔ سیاست دان اقتدار میں نہیں ہوتے تو آئین اور قانون کی بالادستی باتیں کرتے نہیں تھکتے اقتدار میں آنے کے بعد آئین اور قانون کو بھلا دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے ملک میں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں آئین اور قانون پر عمل ہوتا تو سانحہ نو مئی کے ملزمان کا اب تک کوئی فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ دیا تو حکومت نے اپیل کر دی جو کئی ماہ سے زیر سماعت ہے۔ دوسری طرف اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ کی تعداد کئی ہزار ہو چکی ہے جن میں کئی ہزار فوجداری مقدمات بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کئی بار اس بات کا مطالبہ کر چکی تھیں سیاسی مقدمات کی سماعت کے لئے علیحدہ کورٹس کا قیام عمل میں لایا جا ئے۔ حیرت ہے دونوں جماعتیں کئی مرتبہ اقتدار میں مگر علیحدہ کورٹس نہیں بنا سکیں۔ حقیقت یہ ہے عدالت عظمیٰ میں سیاسی مقدمات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں فوجداری اپیلیں زیر التواء ہونے سے ہزاروں مجرم جن میں کئی ہزار سزائے موت کے قیدی شامل ہیں اپیلوں کی سماعت کے منتظر ہیں۔ سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ کی تاریخ میں فوجداری اپیلوں کی سماعت کرکے نئی تاریخ رقم کی جس کے بعد فوجداری مقدمات کی سماعت کی رفتار میں کمی آگئی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ملزمان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کرانے کا حکم دیا ہے جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے حراست میں لئے گے ملزمان سے ان کے اہل خانہ کی ملاقات کو یقینی بنایا جائے گا۔ حکومت کو ملزمان سے غیر انسانی سلوک ہر گز نہیں کرنا چاہیے اسلام بھی قیدیوں سے حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ ہمیں فتح مکہ کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے جہاں رسالت مآبؐ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کر کے رہتی دنیا تک مثال قائم کردی۔ جرم اپنی جگہ جہاں تک زیر حراست افراد کے حقوق کا تعلق ہے ان سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرنے کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر نوجوان مرد اور خواتین ہوں گی۔ جیسا کہ پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر وہ لوگ جو حوالاتی کے طور پر اپنی سزائوں کا بڑا حصہ مکمل کر چکے تھے رہائی عمل میں لائی گئی تھی اسی طرح کا کوئی فیصلہ کرکے مرد و خواتین کی معافی تلافی کا کوئی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جہاں تک عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے شہدا کی یادگاریں ہم سب کے لئے مقدم ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے رہنما یا کارکن کو افواج پاکستان پر غیر ضروری تنقید نہیں کرنی چاہیے سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا پہلو دامن سے نہیں چھوڑنا چاہیے نہ کوئی محب وطن افواج پاکستان کی قربانیوں سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔





