Column

امام حسینؓ اور قیام حسین ؓ

صفدر علی حیدری
کوئی انسان اگر قیام کرتا ہے تو اس کے قیام میں کچھ اہداف و مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں ، کوئی بھی قیام ہو ، رموز و اسرار اور اہداف و مقاصد سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ دیگر بات کہ مقصد کس حیثیت کا حامل ہے ؟
بہر حال قیام کرنے والے کے نزدیک قیام کا ایک ہدف ہوتا ہے ، مثلاً قائد اعظمؒ نے قیام کیا تو آپ کے قیام کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانا اور اسلامیان ہند کے لیے پاکستان کا حصول تھا ۔ چاہے اس راہ میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔ چونکہ ان کے نزدیک مقصد قیام اہم تھا لہٰذا مشکلوں کے پہاڑ بھی پانی نظر آرہے تھے ۔ جب ایک عام انسان کے قیام میں ایک ہدف اور مقصد پوشیدہ ہوتا ہے تو امامِ وقت کا قیام بغیر مقصد ، اور ہدف سے خالی کیسے ہوسکتا ہے؟
روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا قیام کمال مقصد کو پہونچا ہوا تھا۔ امام حسینؓ کے مقصد و فلسفہ قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں، آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان بخوبی ظاہر کرتے ہیں ۔
امام حسینؓ نے مکہ مکرمہ میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے علماء و دانشوروں کے اجتماع میں ایک ولولہ انگیز اور دندان شکن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں دین اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لئے علماء اوربزرگان شہر و دیار کی عظیم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی نیز بنی امیہ کے مظالم کے سامنے ان کی خاموشی اور اموی حکمرانوں کی دین دشمن سیاست کے مقابلہ میں ان کے سکوت پر ان کی سرزنش اور تنقید کی ۔
’’ خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں ( جیسے اموی حکمرانوں کے خلاف خطبے اور اقدامات) یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں ( برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہر و آشکار کریں ۔ میں چاہتا ہوں کہ تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے ‘‘۔ (تحف العقول،ص ۲۳۹)۔
ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؓ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:
حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا، اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی، ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی اور احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا ۔
امام حسینؓ نے مدینہ سے رخصتی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا: ’’ میں نے نہ تو سر مستی اور گستاخی کی خاطر اور نہ ہی فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کی خاطر قیام کیا ہے بلکہ میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔ میں تو امر بالمعروف، نہی عن لمنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد اور اپنے والد علی ابن ابی طالب کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں ( عمل کرنا چاہتا ہوں)۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: خدایا! مجھے معروف ( نیکی) سے محبت ہے اور میں منکر ( برائی) کو ناپسند کرتا ہوں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی، نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا۔
امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں قیام کی دوران اہل کوفہ کے خطوط کے جواب میں جو خط تحریر فرمایا تھا اس خط میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا تھا: میری جان کی قسم ! حاکم وہی ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے ، عدل و انصاف کو قائم کرے، حق پر عقیدہ و ایمان رکھے اور اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کر دی والسلام۔ ( تاریخ طبری، ج۵، ص۳۵۳)۔
اس خط کے مطابق حکومت کی ذمہ داریاں یہ ہیں :
کتاب خدا کے مطابق حکومت کرنا ، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا ، دیندار اور دین خدا پر عقیدہ و ایمان رکھنے والا ہو۔ اپنے آپ کو خدا اور مقاصد الٰہیہ کے لئے وقف کرنا ۔
ایک خط لکھا میں آپ نے اپنے قیام کا مقصد اس طرح تحریر فرمایا : میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسولؐ خدا کی طرف بلاتا ہوں اس لئے کہ سنت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے ۔( تاریخ طبری، ج۵ص ۳۵۷)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’ کوفیوں نے میرے پاس خط لکھا ہے اور مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں ان کے پاس جائوں اس لیے کہ انہیں امید ہے کہ میری قیادت میں حق کی نشانیاں زندہ اور بدعتیں نیست و نابود ہوں گی ‘‘، ایک خط میں فرماتے ہیں ’’ میں تمہیں حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
امام حسینؓ نے منزل بیضہ میں حر بن یزید ریاحی کیلشکر سے روبرو ہونے کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں رسول اکرمؐ کے ارشاد کو دلیل بناتے ہوئے مقصد قیام کو اس طرح بیان فرمایا ہے: اے لوگو! جو شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو کہ حرام خدا کو حلال کر رہا ہو، خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو، رسولؐ خدا کی سنت کی خلاف ورزی کر رہا ہو اور بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتائو کر رہا ہو لیکن وہ شخص اس کے خلاف قول و فعل کے ذریعہ اٹھ کھڑا نہ ہو تو خدا پر ہے کہ اسے بھی اس ستم گر کے ٹھکانے تک پہونچا دے۔ اے لوگو! جان لو کہ ان لوگوں نے شیطان کی فرمانبرداری کو قبول کر لیا ہے اور ان فرمان الٰہی کی اطاعت سے آزاد ہو گئے ہیں، فساد کو ظاہر کیا ہے اور حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کر دیا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہے اور میں مسلمانوں کے امور میں تبدیل لانے کے لئے سب سے لائق انسان ہو۔ ( تاریخ طبری) ۔ امام حسینؓ نے منزل ذُو حُسَم پر اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان فرمایا: کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے؟ ایسے حالات میں تو مرد مومن کو دیدار الٰہی کا خواہاں ہونا چاہئے۔ میں ایسی موت کو صرف شہادت جانتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندگی کو ننگ و عار کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا۔
عبیداللہ ابن زیاد نے امام حسینؓ کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا شہادت یا بیعت یزید، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ذلت ہم سے دور ہے اور خدا، رسولؐ خدا اور صاحبان ایمان نے ایسے ننگ و عار کو ہمارے لئے ذرہ برابر بھی پسند نہیں کیا ہے ، نیز فرمایا: ذلت و رسوائی قبول کرنا ہم میں سے بہت دور ہے اس لیے کہ خدا و رسولؐ نے اس سے انکار فرمایا ہے۔
امام حسینؓ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے: خدا کی قسم میں بیعت کے عنوان سے ذلیل و خوار آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار اختیار کروں گا ۔ ( الارشاد ج۲ص۹۸)، نیز، ارشاد فرمایا: عزت کے ساتھ مرجانا ، ذلت کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے ۔
امام حسینؓ کے بیانات و ارشادات سے نکالے گئے اغراض و مقاصد میں مختصر غور و فکر کر کے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے قیام کا مقصد اور علت اسلامی معاشرے میں کثیر تعداد میں پھیلے منکرات اور برائیوں کا مقابلہ کرنا اور مسلمانوں کے درمیان معروف اور نیکیوں کو رائج کرنا ہے ۔
اگر امام حسینؓ اپنے قیام کا مقصد و علت بدعتوں کے رواج ، کتاب خدا کی مخالفت، حلال و حرام خدا، سنت نبوی کی نابودی، شیطان کو محور بنانا اور اہلبیت کو چھوڑنا ، فساد ، ظلم و زیادتی ، بے انصافی ، اسلامی معاشرے میں بد امنی ، دور الٰہی کو معطل کرنا اور بیت المال کو اپنی ملکیت بنا لینا وغیرہ قرار دیتے ہیں، تو یہ تمام چیزیں اس بات کی نشان دہی کر تی ہیں کہ معاشرے میں منکرات حد سے زیادہ پھیل چکے تھے کہ آپ نے اپنا فریضہ نہی عن المنکر قرار دیا۔ نیز اگر امام حسینؓ اسلامی معاشرے کو کتاب خدا، سنت نبویؐ پر عمل ، حق کی نشانیوں کو زندہ کرنا ، امن و امان پیدا کرنا ، امت کے امور کی اصلاح کرنا وغیرہ کی جانب دعوت دیتے ہیں تو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معروف نامی چیز سماج سے رخصت ہو گئی تھی یا کم ازکم نابودی کے دہانے پر تھی ۔ اسی لیے اگر امام حسینؓ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا اور آپ نے ایسا کرکے ایک طرف تو اپنے آپ کو شہادت اور حکومت یزید کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا تو دوسری جانب یزید کی حکومت کو سرنگوں کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سعی و کوشش فرمائی۔درحقیقت انکار بیعت، نہی عن المنکر ، معروف کو رائج کرنے ، بنی امیہ کی بدعتوں اور مظالم کے سامنے خاموشی کی حرمت کے سلسلہ میں مسلمانوں پر اتمام حجت کرنے کے معنی میں ہے ۔ جیسا کہ ایسی حکومت کی بیعت کرنا یا اس کے سامنے خاموشی اختیار کرنا منکر کو رائج کرنے اور معروف سے مقابلہ کرنے کے علاوہ عام لوگوں کے لئے اموی حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے عذر و بہانہ بنتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں آپ جیسی شخصیت اس بات کے لیے تیار نہیں تھی کہ وہ یزید جیسے آدمی کی بیعت کرے اور اس کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کرے ۔

جواب دیں

Back to top button