ColumnRoshan Lal

مقالے لکھنے اور رائے دینے والے؟

روشن لعل
اگر رائے اور مقالے میں تفریق بیان کی جائے تو ایسے کئی نکات گنوائے جاسکتے ہیں جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں ۔ رائے اور مکالے کے بڑی حد تک مختلف ہونے کے باوجود ان میں یہ قدر مشترک بھی ہے کہ دونوں کسی نہ کسی کا ’’ بیانیہ ‘‘ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی مقالہ چاہے انتہائی مختصر یا ضخیم ترین کیوں نہ ہو اس کی حیثیت رائے سے بہت معتبر ہوتی ہے۔ جو خصوصیات مقالے کو رائے سے معتبر بنائی ہیں ان کی تفصیل چند سو لفظوں پر مشتمل تحریر میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ کوئی مقالہ اگر اس کے بیان کے لیے ضروری قرار دی گئی خصوصیات سے پوری طرح لیس ہو تو نہ صرف وہ رائے سے معتبر ہوتا ہے بلکہ اپنے تخلیق کاروں کو بھی معتبرین کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنے مختصر یا ضخیم تحقیقی کام کی بدولت مقالہ جات لکھنے والے معتبر لوگوں کی صف میں شمار ہو جائے تو اس سے توقع رکھی جاتی ہے کہ کسی معاملے میں اس کی رائے بھی محض اندازہ نہیں ہوگی بلکہ ٹھوس حقائق اور بہت زیادہ سوچ بچار پر مبنی ہوگی۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کئی ایسے لوگ ہیں جن کی تحریروں کو مقالے کا درجہ دیا جاتا ہے مگر وہ بعض اوقات غیر مستند تاریخی حوالوں کو غلط ملط کرتے ہوئے ایسی رائے پیش کر دیتے ہیں جو نہ صرف تعصب پر مبنی تصور کرلی جاتی ہے بلکہ مقالہ سمجھا جانے والا ان کا سابقہ کام بھی شک کے دائرے میں آجاتا ہے۔
واضح رہے کہ جس تحریر کو تحقیقی مقالے کے مرتبے پار فائز کیا جاتا ہے اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے پہلے سے موجود علمی تحقیق کا نئے سرے سے جائزہ لیا گیا ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے تبدیل شدہ حالات کو مد نظر رکھنے کے ساتھ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات سے وابستہ معاملات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ پہلے سے موجود مواد کی نئے سرے سے ترکیب اور اس کے مختلف پہلوئوں پر نئی روشنی ڈالنے کے ساتھ سامنے آنے والے ڈیٹا کا ارتقائی عمل کے تقاضوں کے مطابق تجزیہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔ مقالے کا مرتبہ پانے والی اس اس طرح کی تحریر کا محور کوئی نا کوئی تحقیقی سوال ہوتا ہے۔ ایسے تحقیقی سوال کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص موضوع سے متعلق کیا معلوم کیا جاچکا ہے اور تحقیق کے عمل سے گزر کر ہم مزید کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمل سے گزر کر تخلیق کیے گئے مقالہ جات میں صرف طالب علموں کی دلچسپی کا سامان نہیں ہوتا بلکہ یہ مستند سکالروں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرا لیتے ہیں۔
مقالے کے برعکس ، ’’ رائے‘‘ کو ایک ایسا بیان تصور کیا جاتا ہے جو کسی معاملے میں پہلے سے حتمی سمجھے جانے والے نقطہ نظر کے حق یا مخالفت میں جاری کیا گیا ہو۔ ایسا نقطہ نظر زیادہ تر متنازعہ ہوتا ہے ۔ ایسے متنازعہ نقطہ نظر پر لوگوں کو قائل کرنے کے لیے ، اس سے متعلق پسند نا پسند کی بنیاد پر قائم کی گئی رائے کو عموماً آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رائی کسی بھی مسئلے یا موضوع پر دی جاسکتی ہے۔ رائے دینے والوں کے لیے کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی خاص موضوع پر عبور رکھتے ہوں اس لیے وہ اکثر سیاست، ماحولیات، عالمی مسائل، ثقافتی، ادبی مسائل، تاریخی مسائل، اور دیگر بہت موضوعات پر رائے دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ رائے اور تحقیقی مقالے میں فرق پر بہت کچھ کہنے کی گنجائش موجود ہے مگر اس تفصیلی فرق کو اس ایک بات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جہاں ایک تحقیقی مقالے کا مقصد کسی خاص موضوع کے بارے میں علم کی کیفیت کو آگے بڑھانا ہوتا ہے وہاں رائے کے ذریعے لوگوں کی توجہ کسی خاص نقطہ پر مرکوز کرتے ہوئے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رائے اور تحقیقی مقالے کا فرق بیان کرتے ہوئے جو کچھ کہا گیا ہے اس سے ہر گز یہ اخذ نہیں کیا جانا چاہے کہ رائے ہر حال میں منفی جذبات اور رجحانات کی عکاس ہوتی ہے۔ رائے اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ بری بھی ہو سکتی ہے۔ کسی رائے کا اچھا یا برا ہونا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ رائے کون اور کیوں دے رہا ہے۔ اس بات کا آسان مطلب یہ ہے کہ جو بندہ رائے دے رہا ہے وہ کس قسم کی شہرت کا حامل ہے اور جس موضوع پر وہ رائے دے رہا ہے اسے اس پر کس حد تک عبور حاصل ہے اور زیر رائے معاملہ پہلے ہی کس حد تک متنازعہ یا غیر متنازعہ ہے۔ غور و خوص کے بغیر پہلے سے اخذ شدہ معروف نتائج کی بنا پر کوئی رائے قبول کرنے کے دو طرح اثرات یا نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔ پہلے سے موجود خیالات کی وجہ سے کوئی رائے قبول کرنے سے نئے ہم خیال دوستوں سے رابطے اور دوستی کا امکان پیدا ہوتا ہے ۔ اگر رائے کا صائب ہونا عین ممکن ہو تو نئے ہم خیال دوستوں سے رابطے کے بعد لوگوں کے علم اور شخصیت کی تعمیر کے نئے راستے استوار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے لوگوں کے ساتھ مکالمہ شروع ہونے کے بعد پہلے سے طے شدہ سوچ پر مزید غور و فکر کے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ مذکورہ مثبت اثرات کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ کسی رائے کے صائب یا غیر صائب ہونے پر غور کیے بغیر اس کے ساتھ جذباتی طور پر جڑے ہوتے ہیں ، ان کا اپنی رائے کے ابلاغ کے نتیجے میں مزید رابطہ وسیع النظر انسانوں کی بجائے اپنے جیسے تنگ نظر لوگوں سے ہو جاتا ہے ۔ رائے کی یکسانیت کی بنیاد پر یہ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ ایسا گروہ بنا لیتے ہیں جو نہ متبادل رائے کی طرف دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی صورت اسے قابل غور تصور کرتا ہے۔ ہم خیال لو گوں کی تعداد میں اضافہ کے بعد کچھ گروہ خود سے مختلف رائے رکھنے والے لوگوں کو مکالمے کے ذریعے قائل کرنے کی بجائے، افرادی طاقت کے بل پر تسخیر کرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ مختلف خیالات کے حامل لوگوں کی رائے مبنی بر حقائق یا جدید سوچ کا مظہر ہو سکتی مگر ایسی سوچ کو اپنی شناخت اور افرادی برتری کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے، کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں جو لوگ دانشور سمجھے جاتے ہیں یا جنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو دانشوری کے مرتبے پر فائز کر لیا ہے، ان کی اکثریت نے چاہے اپنا بیانیہ مقالے کی صورت میں ہی کیوں نہ پیش کیا ہو، اسے ہم عصر دنیا میں رائے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جن لوگوں کے بیانیے کو سرکاری و غیر سرکاری دعووں کے باوجود محض رائے تصور کیا جاتا ہے ، ان کے سینوں پر قومی سطح کے کئی تمغے سجے ہوتے ہیں اور ان کی الماریاں ، مختلف ملکی تنظیموں کی طرف سے ملنے والے ایوارڈوں اور ٹرافیوں سے بھری پڑی ہوتی ہیں۔ من حیث القوم ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے دانشوروں کا یہاں تحقیقی قرار دلوایا گیا کام ملکی سطح پر تو معتبر منوا لیا جاتا ہے لیکن بیرونی دنیا میں اس پر اعتبار کیوں نہیں کیا جاتا۔

جواب دیں

Back to top button