
سی ایم رضوان
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ن لیگ سے حکومت نہیں چل رہی، ہم حکومت گرانا اور بنانا جانتے ہیں۔ بلاول ہاس لاہور میں پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت آصف زرداری نے کہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک مشکل میں ہے، ہم سب نے اسے مل کر بچانا ہے، میں خود میدان میں آ گیا ہوں، ہم اپنی عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک سابق وزیراعظم میں میں کرتا تھا آج جیل میں بیٹھا ہے۔ آصف علی زرداری نے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر کیوں عوام سے امتحان لیا جا رہا ہے، آپ آئی ایم ایف سے بات کیوں نہیں کرتے، آئی ایم ایف کو کمرے میں بٹھائیں اور ٹیبل ٹاک کریں۔ صدر آصف زرداری نے اپنے پارٹی رہنماں کو مکھن لگاتے ہوئے کہا کہ آپ سب تیار ہو جائیں ہم نے بہت کام کرنا ہے، روایتی سیاسی بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو آگے لائیں گے۔ پنجاب کی قیادت کیوں نوجوانوں کو موقع نہیں دے رہی حالانکہ ماضی گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے ہمیشہ پنجاب کو اہمیت نہیں دی اور یہاں نمائشی عہدوں اور نمائشی کاموں پر ہی اکتفا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ سیاست سکھائی ہے، میں نے پاکستان کی خاطر کھپے کا نعرہ لگایا، اس کے علاوہ بھی انہوں نے کچھ روایتی اور پرانے بیانات ہی دیئے ہیں۔ صدر زرداری کے ان بیانات کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے اور ایک دوسرے سے سن گن لینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا یہ بیانات انہوں نے پنجاب میں حکومت کے اختیارات میں حصہ لینے کی خاطر دیئے ہیں۔ محض شہباز رجیم کو بلیک میل کرنے کے لئے دیئے ہیں یا حکومتی بدنامی سے اپنی پارٹی کو علیحدہ ظاہر کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیئے ہیں یا وہ واقعی شہباز شریف سے مایوس ہو گئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر آصف زرداری چونکہ مفاہمت کے سنجیدہ کھلاڑی ہیں لہٰذا ان کی یہ آخری دم تک کوشش ہو گی کہ وہ صدارت اور دیگر عہدوں کے مزے بھی لیتے رہیں اور آخر تک ن لیگی حکومت کے خلاف ہلکی پھلکی موسیقی بھی جاری رکھیں لیکن بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اس ہلکی پھلکی موسیقی میں انہوں نے جو اونچے سر لگا کر حکومتیں توڑنے اور جوڑنے کی بات کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی بڑا اور الگ رزلٹ چاہتے ہیں جس کے لئے انہوں نے سیاسی شطرنج پر بڑی چال چل دی ہے۔
آصف علی زرداری ملکی تاریخ میں پہلے سیاست دان ہیں جو دوسری مرتبہ صدارت کے منصب تک پہنچے ہیں۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی سے پہلے آصف زرداری نے 1983میں نواب شاہ سے ضلع کونسل کا انتخاب لڑا اور ہار گئے۔ 1990کے عام انتخابات میں آصف زرداری کو اپنے آبائی ضلع نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی لیکن کراچی کے حلقے این اے 189سے وہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وہ وفاقی وزیر اور چیئرمین انوائرمنٹ پروٹیکشن کونسل مقرر ہوئے۔ 1997میں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 2018اور 2024کے انتخابات میں وہ نواب شاہ سے رکنِ قومی اسمبلی بنے۔ اب وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے چیئرمین اور دوسری بار پاکستان کے 14ویں منتخب صدر ہیں۔ ان کے صدارت کے اس عہدے کی بنیاد ن لیگ کے اکثریتی ووٹ بھی ہیں مگر انہوں نے آج تنقید کرتے ہوئے اس امر کو بھی فراموش کر دیا ہے حالانکہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر کھلاڑی تصور کیے جاتے ہیں اور اُن کے ناقدین بھی اُن کی مفاہمت اور امکانات کی سیاست میں اپنے لئے راستہ نکالنے کی ان کی خداداد صلاحیت کے معترف ہیں۔ اسی جوڑ توڑ کے تحت وہ آٹھ فروری کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیتی گئی نشستوں کی اہمیت کی بنیاد پر مسلم لیگ ( ن) سے مذاکرات کے بعد کئی پارلیمانی عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب اپنی اس پوزیشن کی طاقت کا اظہار اس طرح کر رہے ہیں کہ انہوں نے ن لیگ کو کھلی دھمکی دے دی ہے۔
سندھ کے زمیندار حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری 26جولائی 1955کو نواب شاہ ( شہید بینظیر آباد) ڈسٹرکٹ کی تحصیل قاضی احمد میں پیدا ہوئے۔ ان کے کیریئر کی ابتدا اوسط درجے کے بلڈر کی حیثیت سے ہوئی جو اپنے ساتھیوں کی طرح 1980کی دہائی کے اوائل میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے) کے دفتر کے چکر لگاتے تھے۔ آصف زرداری اس دور کے سادہ مزاج بلڈر تھے جو کے ڈی اے کے چپڑاسیوں میں مقبول تھے۔ افسروں کے ساتھ بیٹھ کر دال چاول اور بھنے ہوئے چنے کھاتے تھے۔ سیاست سے دور آصف زرداری کی زندگی میں ہنڈریڈ ڈگری ٹرن اس وقت آیا جب ان کی منگنی بینظیر بھٹو سے ہوئی۔ زرداری نے انیس سو نوے کی دہائی میں طویل جیل کاٹی اور ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’ دختر مشرق‘ میں خاوند کے جیل میں قید ایام کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جب سابق صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات پر برطرف کی تو آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد ان پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور انہیں ’ مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا لقب بھی دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت بھی کرپشن اور مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کے باعث برطرف کی گئی۔ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے الزام میں بھی آصف زرداری گرفتار کئے گئے تھے۔ بینظیر کی دونوں حکومتوں کے دوران آصف زرداری کو پاکستان کے پہلے ’ مردِ اوّل‘ کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انہیں ’ گاڈ فادر‘ اور ڈی فیکٹو وزیرِ اعظم بھی کہا جاتا رہا۔ ان پر قتل سے لے کر دوسرے بے شمار الزامات لگے۔ وہ کئی مقدمات میں عدالتوں سے بری ہوئے اور کئی کیسز اب بھی زیرِ سماعت ہیں۔ صدرِ پاکستان بننے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف آئندہ پانچ برس تک مقدمات میں کارروائی نہیں ہو پائے گی۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے ظاہر کردہ ان کے اثاثوں کے مطابق ان کے پاس 20گھوڑے، 300اونٹ، 200 بھینسیں، گائے اور 250بکریاں ہیں۔ اس کے علاوہ 5658ایکڑ زرعی زمین بھی انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر کی ہے مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی اصل زمین اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آصف زرداری کے قریبی دوست ستار کیریو کے مطابق آصف زرداری کھانے میں چکن، مچھلی کھانا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ تلی ہوئے بھنڈیاں، مختلف قسم کی دالیں اور دال چاول کھانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے دوستی نبھانے کے حوالے سے کئی قصے اور کہانیاں بھی زبانِ زدِ عام ہیں۔ نواب شاہ کے سینئر صحافی بخش علی جمالی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ اپنے ایک دوست ستار کیریو کی شادی میں شریک تھے جہاں انہوں نے آصف زرداری کو مہمانوں کو ریسیو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ بخش علی جمالی کے مطابق ستار کیریو آصف زرداری کے بچپن کے دوست ہیں جن کے لئے صدر زرداری نے سندھ کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے رشتہ بھی مانگا تھا۔ ستار کیریو نے بتایا کہ انہوں نے صدر زرداری کو زندگی میں سب سے زیادہ پریشان اپنی اہلیہ محترمہ بینظیر بھٹو کی موت کے وقت دیکھا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں اکثر و بیشتر وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے اسی کا صدر بھی منتخب ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں جب بھی وفاقی حکومت اور صدرِ پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو صدر نے اسمبلی توڑ کر حکومت کو گھر بھیجا۔ اس بار چونکہ صدر کے پاس آرٹیکل 58.2بی کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس لئے حکومت گھر تو نہیں بھیجی جا سکتی مگر حکومت اور صدر کے درمیان اختلافات ہو جائیں تو صدر آئینی بحران ضرور پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے میں اب یہ خدشہ سامنے آیا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے تو پھر کیا ہوگا کیونکہ اب صدر نے موجودہ حکومتی اتحاد کو اختلافات کی آگ دکھا دی ہے جو کہ نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ بڑے گھر والوں کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ موجودہ سیاسی کشیدگی کو کم کرنا، معاشی حالات بہتر کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ایسے چیلنجز ہیں جن کے لئے دونوں بڑی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت تھی حکومت کے قیام اور عہدی بانٹتے وقت یہی عہد کیا گیا تھا کہ وہ مل کر ان مسائل سے ملک کو نکالیں گے۔ صدر زرداری نے بھی پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ مسائل کے حل کا عزم ظاہر کیا تھا مگر اس عزم میں پہلے بجٹ کے فوراً بعد ہی مایوسی اور اتحاد میں دراڑ آ جانا اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین اعتبار اور بظاہر باہمی صلاح مشورہ کی شدید کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری آئی ایم ایف کے پروگرام اور اس کی ہدایت کے مطابق پاکستانی عوام پر مہنگائی مسلط کر دینے پر تنقید کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اب جبکہ وفاق میں ایک پارٹی کی حکومت ہے اور صدر پاکستان کا تعلق دوسری پارٹی سے ہے۔ اس مرتبہ یہ ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس تجربے کی ناکامی کے آثار بھی نظر انے لگے ہیں۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ موجودہ وزیرِ اعظم کا انحصار پیپلز پارٹی پر ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی بھی شاید ماضی قریب و بعید کے تمام شکوئوں اور مظالم کا ن لیگ سے بدلا لینے کا ٹھان چکی ہے حالانکہ اس بار مسلم لیگ ( ن) کو چوتھی بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور وہ یہ نہیں چاہے گی کہ وہ ناکام ہو مگر شاید آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں کہ وہ ناکام بھی ہو اور اس ناکامی کے برے نتائج زرداری یا ان کی پارٹی کو نہ بھگتنا پڑیں۔ تبھی تو انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ حکومتیں گرانا اور بنانا جانتے ہیں۔ تاہم یہ سوال بڑا اہم ہے کہ یہ موجودہ حکومتی اتحاد میں حقیقی دراڑ ہے یا محض ایک جھوٹی للکار ہے۔





