ذمہ دار بھی فیصلہ ساز ہیں!

تجمل حسین ہاشمی
مرد کی آدھی زندگی تعلیم اور باقی پیسے کی دوڑ میں گزر جاتی ہے۔ ساری زندگی بیوی کے خوف اور بچوں کے مستقبل کیلئے پردیسی بنا رہتا ہے۔ ان پڑھ ہے تو ساری عمر وزن اٹھاتا ہے۔ زیادہ بچے اور پھر بیٹوں کی خواہش کے چکر میں رہتا ہے۔ آخر میں وقت نزع آ جاتا ہے۔ بچے کے مستقبل کی اس کو کوئی سمجھ نہیں۔ مال دار گھرانے میں انسان کا پیدا ہونا خوش نصیبی لیکن اپنے ذاتی کمائے ہوئے مال پر عیاشی آسان نہیں ہے۔ میری جب بھی اس سے ملاقات ہوتی میں اس سے ایک ہی سوال پوچھتا تھا کہ اتنا سارا سامان باہر ملک سے لاکر جمع کرتے ہو، آپ تو یہاں نہیں رہتے ہو، سالوں سال گھر میں بند پڑا رہتا ہے، کوئی استعمال نہیں کرتا، کسی غریب کو دے دو، صدقہ جاریہ آپ کے کام آئے گا۔ وہ میری بات پر خاموش رہتا، کوئی جواب نہیں دیتا، ہر دفعہ مجھے وہ بے بس نظر آیا۔ اس کی بے بسی اس کے چہرے سے واضح نظر آتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے ساتھ بیٹھی اس کی کزن کہنے لگی بھائی آپ جب آتے ہو ایک ہی سوال پوچھتے ہو، آج میں آپ کو اس کا جواب دیتی ہوں۔ ہمارا دل نہیں مانتا کہ سالوں سے جمع کیا ہوا قیمتی سامان کسی کو دیدیں۔ میں نے کہا بہن یہ سب کچھ خراب ہو جائیگا، کسی کے کام آ جائیگا، وہ آپ کو دعائیں دے گا۔ بہن نے دوبارہ کہا کہ بھائی ہمارے پاس وہ دل، حوصلہ نہیں ہے، بھلے یہ گل جائے، سڑ جائے، ہمارے پاس کسی کو دینے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اللہ کی عبادت بھی ہم خوب کرتے ہیں لیکن ہمارا دل کمزور ہے۔ میں نے زور سے قہقہہ لگایا، پھر تھوڑی دیر کیلئے خاموشی چھا گئی، مجھے بھی تھوڑا محتاط سوال کرنا چاہئے تھا۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ بے بس انسان بھی مردہ جیسا ہوتا ہے، جس کو جتنا مرضی جھنجھوڑ لو کبھی زندہ نہیں ہوسکتا۔ بعض مرد حضرات مردہ جیسے ہوتے ہیں، بیوی بچوں کے مستقبل کا خوف ان کو مردہ کر دیتا ہے، یقیناً بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے والدین ہی پرورش کے ذمہ دار ہوتے ہیں، خاص کر باپ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے لیکن اللہ پاک کے واضح احکامات ہیں کہ پالنے والا میں ہوں، بیوی بچوں کو دوسروں کے دکھوں کو بانٹنے کی ہمت دلانا مرد کے ذمہ ہے۔ مرد کی ہمت، حوصلہ سے خاندان مضبوط ہوتا ہے۔ مرد کی اصلاحی آواز گھر میں روشنی کی مانند ہے۔ سورج کی روشنی ایسی نعمت ہے جس سے یہ نظام چل رہا ہے۔ ہزاروں نقصان دہ جراثیم اس روشنی سے مرتے ہیں۔ ویسے خوشی، سکون کا تعلق کبھی بھی مال و دولت، جائیداد سے نہیں ہوتا۔ ان کا تعلق اگر مال و متاع سے ہوتا تو آپ کبھی بھی رات کو سو نہ پاتے۔ رات کی نیند اتنی بڑی نعمت جس کے بدلے میں آپ جائیداد، سب مال و متاع کو بھول جاتے ہو، آپ کو مال و متاع کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ بس اس وقت نیند آپ کیلئے اہم ہوتی ہے۔ مال و دولت آپ کو سکون عطا نہیں کرتے صرف زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہم نے اس کو سکون سمجھ لیا ہے۔ موجودہ معاشی حالات کے پیسے نظر اس وقت لوگ انتہائی مشکلات میں ہیں، ضروریات زندگی اور مالی مسائل پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں۔ انسانی زندگیوں کو پریشانی لاحق ہے، بے چینی اور خوف گھیرے ہوئے ہے۔ لوگ گرمی سے مر گئے ہیں۔ سیلاب کا خطرہ ہے۔ ہم درباروں، پیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پانچ وقت اللہ بلاتا ہے نہیں سنتے۔ نفسا نفسی معاشرہ کو توڑ رہی ہے۔ تمام مشکلات کا حل اللہ پاک کی شرعی نظام میں ہے۔ ہمیں ان مشکلات سے نجات کیوں نہیں مل رہی۔ ابا جی کہتے ہیں کہ ہم اپنی بے چینی، مشکلات اور بے سکونی کو ختم کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ کبھی نہیں سوچا کہ ایک مٹی کا انسان اتنا طاقتور کیسے ہوگیا کہ وہ اپنی مشکلات ، بے چینی، بے سکونی کو اپنی محنت سے سکون میں بدل دے۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کیوں کہ انسان جب تک اپنے رب کے سامنے اپنی مشکلات نہیں رکھے گا ، اللہ پاک سے نہیں مانگے گا ، اس کے احکامات پر نہیں چلے گا۔ بے سکونی ختم نہیں ہوسکتی۔ جب تک اپنے رب کے سامنے سکون، راحت کے طالب نہیں بنو گے اس وقت تک محرم رہو گے۔ ہم اور آپ کئی ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو بظاہر انتہائی سادہ ، للو نظر آتے ہیں لیکن دنیاوی طور پر بڑے مضبوط ہوتے ہیں ۔ پھر ہمارے ہی دل میں الٹے خیال آتے ہیں کہ میں اتنا تعلیم یافتہ، طاقتور، خوب صورت ہونے کے بعد بھی مالی طور پر کمزور ہوں لیکن وہ جس کو بات کرنا نہیں آتی، وہ اتنا مال دار کیسے ہوگیا ہے۔ اپنے ہی دماغ میں کئی منفی سوالات پیدا کر لیتے ہیں جو آپ کے یقین کو کمزور کر دیتے ہیں۔ ایسی منفی سوچوں سے نجات اور دنیاوی و آخرت میں کامیابی ایک ہی بات پر منحصر ہے کہ اللہ پاک ہی سب کچھ کرنے والے ہیں اور دونوں جہانوں کا مالک اس کی ذات ہے۔ بندہ اس کی مخلوق ہے اور وہ مالک ہے۔ تقسیم اس کا فیصلہ ہے اس پر شاکر رہنا یقین کامل ہے۔ محنت کرنا اور اس کی اطاعت ہمارا فرض ہے ۔ کفریہ کلمات سے بچنا ہوگا۔ معاشی تنگ دستی سے فرد نظام قدرت کیخلاف چل رہا ہے۔ تباہی سامنے کھڑی ہے۔ اللہ کے احکامات کی سمجھ رکھنے والے حکمران جب سودی نظام اور ظلم کیخلاف کھڑے نہیں ہوں گے تو حافظ قران یا عالم دین کیلئے باعث لمحہ فکریہ ہے۔ معاشی بہتری کے دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن یہ سب فرضی ہیں۔ مٹی کے گھروندوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ قرآن میں واضح احکامات ہیں کہ سودی نظام حرام ہے، اس جرم کے مرتکب اور جواب دہ وہی ہوں گے جو حکمران طبقہ ہیں، کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونیوالے پاکستان کی فیصلہ سازی کے ذمہ داروں کو جواب دینا ہوگا۔ گزشتہ روز وڈیو والے معاملہ پر ہمیں افسوس کرنا چاہئے۔ قرآن پاک میں والدین کے بڑے حقوق ہیں۔ آپ بریگیڈیر (ر) کو ایک باپ کی حیثیت سے دیکھیں۔ باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اللہ کے ماننے والو تھوڑا سمجھ سے کام لو ۔ باپ اور بریگیڈیئر (ر) کا فرق سمجھو۔ اولاد کیلئے وہ ایک باپ ہے، جس کا جواب اور حساب اولاد کو دینا ہے ۔





