Columnمحمد مبشر انوار

پیش منظر و پس منظر

محمد مبشر انوار (ریاض)
ہوائوں کے رخ پر اڑنا کتنا آسان ہے اور زندگی کس قدر پر تعیش و آسانی سے گزر جاتی ہے اس کا پاکستان میں مشاہدہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ جہاں سرکاری اداروں میں بیٹھے اہلکار بغیر سوچے سمجھے، سر جھکائے ہوائوں کے دوش بدوش اپنی سرکاری فرائض سر انجام دیتے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل سے یہ سرکاری اہلکار، اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی ہی نہیں بلک اپنی آنے والی نسلوں تک کی زندگی آسودہ کر لیتے ہیں البتہ اس مشق میں ریاست پاکستان کو کیا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، پاکستانی شہری کیسے اس سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا احساس ہونے کے باوجود، یہ سرکاری اہلکار مادر وطن کے وسائل لوٹنے سے گریز نہیں کرتے۔ مالی اعتبار سے ہونے والا نقصان تو ممکنہ طور پر پورا کیا جا سکتا ہے لیکن ساکھ کو پہنچنے والا نقصان کسی بھی صورت پورا نہیں ہو سکتا جو اعلی سرکاری عہدیداران کا بعد از مدت ملازمت، اس ملک سے ’’ ہجرت‘‘ کرنے سے ہوتا ہے، اس ضمن میں ساری دنیا آگاہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف ایسے اعلیٰ سرکاری عہدیداران بلکہ سیاسی اشرافیہ کے نزدیک بھی یہ ملک صرف حکمرانی کے لئے ہے، جس میں اس کے وسائل کو لوٹ کر، بیرون ملک ذاتی اثاثے بنائے جائیں اور اس ملک کو مسائل کی دلدل میں چھوڑ کر بیرون ملک سکونت اختیار کر لی جائے۔ ماضی قریب میں نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اس ملک کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کر، کون سی طاقتور ترین ہستیاں بیرون ملک سکونت اختیار کر چکی ہیں، ان میں نواز شریف اور خاندان ، آصف زرداری اور خاندان ، کئی ایک دیگر سیاسی بڑے و چھوٹے رہنما جو بہرطور لوٹ مار میں ملوث رہے، سرکاری اہلکاروں کی ایک فوج ظفر موج بیرون ملک سکونت اختیار کئے بیٹھی ہے۔ جس میں حالیہ دنوں میں سرفہرست سابق طاقتور ترین غیر سیاسی شخصیت بھی شامل ہے کہ جس کے متعلق انکشافات نے پاکستانیوں کو ششدر کرر کھا ہے، یہ وہی شخصیت ہیں کہ جن کے حکم /مداخلت پر سیالکوٹ کے ایک شرم و حیا کے پیکر سیاستدان کو ہارا ہوا انتخاب، جتوا دیا گیا تھا، تاہم اس کے لئے بیرون ملک زندگی اتنی بھی سہل نہیں ری اور تارکین وطن پاکستانی، جہاں موقع ملے، اس کی زندگی اجیرن کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے افراد کی بدولت آج پاکستان اقوام عالم میں اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے اور جو مقام اسے بوقت آزادی نصیب ہوا تھا، اس میں مسلسل کمی دکھائی دیتی ہے، پاکستانی شہری یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آزادی کے بعد یہی ان کا نصیب تھا، تو قائداعظم کو اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ یہی کام یہ خوشامد پرست ٹولہ بغیر آزادی حاصل کئے بھی کر ہی رہا تھا، تاہم میرا یہ ایمان ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور پاکستان کی منزل و مقدر قطعا یہ نہیں جو ایسے بی ضمیروں کے باعث اس وقت دکھائی دے رہا ہے۔
بطور تاریخ کے طالبعلم، ہر شخص اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ غیر سیاسی طاقت نے ریاستی مشینری کو اپنے لئے خوب استعمال کیا ہے جو بدقسمتی سے آج بھی جاری و ساری ہے لیکن ہوائوں کے مخالف اڑنے والے شاہینوں کی پرواز اس وقت پاکستانی افق پر بخوبی دیکھی جا سکتی ہے کہ آج ریاستی مشینری میں ایسے باضمیر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جو کسی کے آلہ کار بننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے ڈٹ کر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی بھی دباؤ کا سامنا جس ہمت، دلیری و بہادری سے کر رہے ہیں، اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات بدلنے کو ہیں، گو کہ یہ تبدیلی راتوں رات ممکن نہیں کہ ابھی بھی ایسے مفاد پرست و موقع پرست و کمزور و ناتواں یہاں موجود ہیں، جو معاملات کو ’’ آقائوں‘‘ کے خوشنودی کے مطابق سرانجام دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم اب ان کے لئے خواہشوں کی تکمیل آسان دکھائی نہیں دیتی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھا گیا ایک خط، اب مزاحمت کی تحریک بنتا دکھائی دے رہا ہے، عدلیہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی دکھائی دے رہی ہے، کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، انصاف کا ترازو ہاتھ میں اٹھائے، انصاف کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز و دلیر ججز نے جو جرات و بہادری دکھائی ہے، عدلیہ سے اسی کردار کی توقع کی جانی چاہئے، جو علم اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے بلند کیا ہے، ان کے پیروکاروں کو اس علم کو ہر صورت بلند رکھنا ہوگا، اس کی مضبوطی سے تھامنا ہو گا، صرف اسی صورت میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی ممکن ہو سکے گی وگرنہ ہوس اقتدار و زر کی آکاس بیلوں نے وطن عزیز کو صرف لوٹنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے وجود تک کو خطرات سے لاحق کر دیا ہے۔ منصف کی کرسی پر بیٹھے ان منصف مزاجوں کو سلام کہ جنہوں نے ہر قسم کے دبائو، جس کی تشہیر میڈیا پر ہو چکی بشمول خلوت کے معاملات تک جو انتہائی گری سے بھی گری ہوئی حرکت ہے، کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور آج اپنے فرض کی ادائیگی ڈٹ کر، کر رہے ہیں۔ فارم 47کی مقننہ و انتظامیہ بھرپور کوشش میں ہے کہ کسی طرح قوانین بدل کر، ان منصفوں کا راستہ روک سکے،’’ ایک‘‘ منصف اعظم ان کو میسر ہے جو دریں حالات بھی اپنی پوری کوشش میں ہے کہ کسی طرح موجودہ انتظام کو جاری و ساری رکھ سکے لیکن اس کے لئے بھی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں کہ عدلیہ کا کام فقط قانون کی تشریح نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر انصاف کی فراہمی ہے جس کی خاطر کسی غلط قانون کو سرے سے کالعدم قرار دینا بھی عدلیہ کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن شنید ہے کہ بعد از مدت ملازمت کسی اچھے ملک کی سفارت گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے جب اشرافیہ کے مابین یہ طے ہو کہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہی کرنا ہے اور ایک دوسرے سے مفادات ہی کشید کرنے ہیں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس چھوٹی سی دنیاوی حیثیت کے بدلے آئین و قانون کی تشریح ، انصاف کی قیمت پر کر دی جائے کہ جہاں دیگر بہت سے احباب پاکستان کو نقصان پہنچا چکے ہیں، ایک اور کے نقصان پہنچانے سے کیا ہو جائیگا؟
دوسری طرف مسلسل اطلاعات یہی ہیں کہ قیدی نمبر 804کے ساتھ مذاکرات بہر طور جاری ہیں اور اس سے کہا جا رہا ہے کہ فی الوقت سیاست سے کنارہ کشی کر لو لیکن قیدی کا ایک ہی جواب ہے کہ میرا مینڈیٹ مجھے واپس کرو، باقی باتیں بعد میں ہوں گی، جوابا اس کی قید میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حیلے بہانوں سے اس کے مقدمات میں تاخیر کی جا رہی ہے تا کہ وہ کسی طرح باہر نہ آ سکے اور نہ ہی عوام میں جا سکے۔ عالمی سطح پر ہونے والی پیشرفت بھی حکمرانوں کو شرم دلانے میں ناکام ہیں بلکہ ایسی کسی بھی پیشرفت پر بودے دلائل کے ساتھ اشرافیہ سامنے آ رہی ہے ، جس سے بجائے خفت مٹنے کے، شرمندگی مزید بڑھتی جا رہی ہے، اقوام عالم میں پاکستان کی ساکھ مسلسل گر رہی ہے لیکن جعلسازی سے حکومت میں آنے والوں کو اس کو چندہ کوئی پروا نہیں۔ عمران خان تہیہ کئے بیٹھا ہے کہ وہ نہ صرف نظام کو بلکہ نظام دین کو بھی پوری طرح ننگا کر کے چھوڑے گا، اس میں خواہ اس کی جان جاتی ہے تو چلی جائے لیکن وہ اپنی جدوجہد کو کسی ڈیل کی نذر نہیں کرے گا۔ درحقیقت یہی عمران خان کی شخصیت ہے کہ جب وہ ٹھان لے تو پھر وہ اپنی بھی نہیں سنتا اور ایسے شخص سے طاقتوروں کا پالا پاکستانی تاریخ میں دوسری مرتبہ پڑا ہے، ایسا ایک دیوانہ شخص جسے عوامی مقبولیت کا زعم تھا، اپنی جان کی قربانی دے چکا ہے لیکن اس کا دعوی سچا ثابت ہو چکا ہے کہ وہ تاریخ میں مرنے کی بجائے کسی آمر کے ہاتھوں مرنا بہتر سمجھتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دے دی ہے جبکہ دیگر دو ججز کے اضافی نوٹ ابھی باقی ہیں، حیرت اس امر پر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے، دہائیوں پرانے مقدمے کی ناانصافی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے لیکن حال میں ہونے والی ناانصافیوں پر ان کی نظر نہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ چند دہائیوں بعد کوئی دوسرا چیف جسٹس آف پاکستان، آج ہونے والی ناانصافیوں پر بعینہ اپنی رائے دے بھی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحب، آپ اپنے معاملات آج ہی، بذات خود طے کر لیں تو زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ مستقبل کا کوئی چیف جسٹس آپ کے متعلق ایسی رائے دے۔
پاکستانی سیاسی و انتظامی و عدالتی افق اس وقت یہی پیش منظر و پس منظر کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس سے مستقبل قریب میں کیا برآمد ہوتا ہے، اس کا انتظار ہے۔

جواب دیں

Back to top button