روایتی تنقید برائے تنقید اور میں نہ مانوں کی گردان

فیاض ملک
قارئین کرام! خبر یہ ہے کہ پنجاب کے 18شہروں میں31دسمبر2024تک تمام اضلاع میں سمارٹ سیف سٹی پراجیکٹ آپریشنل کر دئیے جائیں گے، پہلے مرحلے میں اگست کے آخر تک شیخوپورہ سیف سٹی منصوبہ فنکشنل ہو گا۔ شیخوپورہ کے ساتھ ہی گجرات، جہلم، اوکاڑہ اور ٹیکسلا سیف سٹی پراجیکٹ بھی اگست میں مکمل ہونگے، اسی طرح رحیم یارخان، مظفرگڑھ، ساہیوال، جھنگ، اٹک، حسن ابدال، ڈی جی خان، سیالکوٹ، مری اور میانوالی سیف سٹی اسی سال مکمل ہونگے۔آرٹیفشل انٹیلیجنس بیسڈ سافٹ وئیر کی مدد سے کیمروں سے مانیٹرنگ کی جائیگی۔18 شہروں میں ائیر کوالٹی انڈکس مانیٹرنگ کیلئے انوائرمنٹ سینسر بھی لگائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی موجود گی میں سیف سٹیز اتھارٹی اور این آرٹی سی کے مابین معاہدہ طے پایا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں ترقی کا نظریہ صرف فی کس آمدنی کو بڑھانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کے ’’ معیار زندگی‘‘ کو بڑھانا ہے۔ ’’ کوالٹی آف لائف‘‘ کی پیمائش کرنیوالے ماہرین کی مختلف آراء کے باوجود بحث کا مرکز شہریوں کے اطمینان کے ساتھ ساتھ فلاح و بہبود ہے۔ ’’ معیار زندگی‘‘ سے منسلک صحت، تعلیم اور ماحول جیسے دیگر بڑے عوامل میں شہریوں کی حفاظت اور تحفظ سب سے اہم عنصر ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے عوام میں عوامی تحفظ اور تحفظ کا احساس فراہم کیے بغیر معیشت کے لحاظ سے ترقی اور ترقی نہیں کر سکتا، اسی نقطہ نظر کے تحت لاہور کے بعد پنجاب کے18 مختلف اضلاع میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسا نظام وجود میں لانا ہے جس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملے، سیف سٹی آئیڈیا عوام کی فلاح و بہبود کیلئے شناخت کیے گئے ہر ایک مسئلے کیلئے ون اسٹاپ شاپ جواب کی مثال دیتا ہے۔ یہ موجودہ شہری علاقوں کےلئے موثر پولیسنگ کا ایک آلہ تیار کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترتیب دینے اور کام کرنے کیلئے منفرد فریم ورک کو بااختیار بناتا ہے۔سیف سٹی سینٹر کا ورکنگ ماڈل محفوظ شہروں کا وعن ایک مربوط کمانڈ، کنٹرول اور کمیونیکیشن پروگرام (IC3)بنانا ہے ،یہ ریاست اور اس کے اثاثوں پر دبائو کو ناقابل یقین حد تک کم کرتا ہے کیونکہ ڈیٹا مرکزی طور پر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور سرگرمیاں مرکزی اتھارٹی کے ذریعے مربوط ہوتی ہیں۔لاہور کے بعد صوبے کے 18مزید اضلاع کے اندر سیف سٹی اتھارٹی کے قیام کے عمل کو یقینی بنانے کا تمام تر کریڈٹ موجودہ ایم ڈی سیف سٹی احسن یونس اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے اور وہ یقینا اس کریڈٹ کے مستحق بھی ہے،ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن کے قیام سے لیکر کرائم سٹاپر کااجرائاور122 سے زائد مقامات پر پینک بٹن کی تنصیب کیساتھ ساتھ جگہ جگہ فری وائی فائی انٹرنیٹ کنکشن کا اجرائ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیف سٹی اتھارٹی کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اب سیف سٹی کے موجودہ عوام دوست پروجیکٹ پر بے جا تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے کہ یہ پرانے پروجیکٹ تھے جن کو ( نیا) کرکے دوبارہ شروع کیا گیا ہے، لیکن جب بحیثیت صحافی اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی روایتی تنقید برائے تنقید اور میں نہ مانوں کی گردان نکلی، پہلے ہم بات کرتے ہیں سیف سٹی کی جانب سے شہر کے 122مقامات پر لگائے جانیوالے پینک بٹن کی، جی ہاں بلکہ 2017میں نجی کمپنی کی مدد سیف سٹی پراجیکٹ میں 255مقامات پر پینک بٹن نصب کیے تھے لیکن اسی دوران نجی کمپنی سے کنٹریکٹ کے مسائل کی بنا پر پینک بٹن آپریشن اینڈ مینٹینس نہ ہونے کے باعث غیر فعال ہوگئے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے فوری طور پر پینک بٹن کی بحالی کے احکامات دئیے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے موجودہ سیف سٹی انتظامیہ نے ابتدائی مرحلے میں 50مقامات پر بحال کیا جبکہ دوسرے مرحلے میں پینک بٹن کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے 100مقامات پر اور اب 122مقامات پر فعال کیا جا چکا ہے، اسی طرح وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے پنجاب کے 36اضلاع میں ویمن پولیس سٹیشن قائم کرنے کی ہدایات دی، جس پر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے سمارٹ ٹیکنالوجی اور زیرو کاسٹ کے ذریعے ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن قائم کیا جوکہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پولیس سٹیشن ہے۔ پنجاب بھر سے خواتین 15کال ،ویمن سیفٹی ایپ،پنجاب پولیس ایپ اور سیف سٹی ویب پورٹل کے ذریعے ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن میں رابطہ کرتے ہوئے شکایت درج کرواسکتیں ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ویمن سیفٹی ایپ کو پہلی بار 2017 میں لانچ کیا گیاجس کو وقت کیساتھ ساتھ اپ گریڈ نہ ہونے کی باعث پذیرائی نہ مل سکی۔ تاہم جب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے کہا تھاکہ ’’ خواتین کوہراساں کرنا میری ریڈ لائن ہے ‘‘، جن کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائینگے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے 27فروری 2024کو پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی کے اپنے پہلے دورے میں پنجاب پولیس ویمن سیفٹی ایپ کو مزید نئے فیچرز کے ساتھ اپ گریڈ کرنے کے احکامات دئیے جس کے ورژن2کو سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے10 نئے فیچرز کے ساتھ 8مارچ 2024کو لانچ کیا گیا۔یہی نہیں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے محفوظ پنجاب ویژن کے مطابق پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی کو لاہور سمیت پنجاب بھر میں فری وائی فائی لگانے کی ہدایات دی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے لاہور بھر میں ابتدائی مرحلے میں 100مقامات پر فرئی وائی فائی کی سہولت فراہم کی۔فری وائی فائی کا مقصد شہریوں کوایمرجنسی میں فوری امداد اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔شہری فری وائی فائی سروس کو ویمن سیفٹی ایپ،پنجاب پولیس ایپ ،واٹس ایپ اورٹیکسی رائیڈ بک کرنے کیلئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ فری وائی فائی ایمرجنسی سروس ویڈیو سٹریمنگ یا انٹرٹینمنٹ کیلئے نہیںہے۔صوبائی دارالحکومت میں فری وائی فائی کو 100سے بڑھا کر 200مقامات پرایکٹو کر دیا گیا ہے جس کو مستقبل میں 450مقامات تک پہنچایا جائیگا۔پنجاب بھرمیں سیف سٹی کا دائرہ کار وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ فری وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی جائیگی۔ یقین جانئے کہ اس وقت عوام کو سیف سٹی اتھارٹی سے بہت امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایسے کام کئے ہیں، جنکی وجہ سے اب شہروں کو محفوظ بنانے اور جرائم پر نظر رکھنا آسان ہو گیا ہے، قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس کی محکمے کیلئے ہمارے عمومی خیالات اس سے متصادم ہیں، ایک طویل عرصے سے ایک خاص سوچ ہمارے ذہنوں میں بٹھائی گئی ہے کہ محکمہ پولیس میں سب لوگ برے ہیں جو کہ ایک بہت غلط سوچ ہے، ایسا ممکن نہیں اس محکمے میں بھی بہت قابل، لائق اور ایمان دار افسران اور جوان ہیں جن کی محنت ایسے ہی منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو پولیس ڈیپارٹمنٹ پر تنقید کرنا دور حاضر میں باعث ثواب اور بلندی درجات کا موجب سمجھا جاتا ہے،ویسے بھی بحیثیت صحافی میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت تنقید برائے تنقید کا نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کا ہے، پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا، شہریوں کو ریلیف نہ دینے والے سرکاری محکموں اور ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بنائیں لیکن جہاں عوام کو ریلیف ملے اور ان کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل ہو ان کی بلا جھجک تعریف بھی کریں۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ اصلاحات کا عمل اگر پائیدار نہ ہو اور یہ محض پالیسی سازی تک ہو اور عملدرآمد اس کی ترجیحات کا حصہ نہ ہو تو کچھ بھی ممکن نہیں یہ فکری مغالطے سے ہمیں باہر نکلنا چاہیے کے اداروں کو مضبوط بنائے بغیر ہم ایک مہذب معاشرے میں اپنے آپ کو ڈھال سکیں گے۔ بلاشبہ پولیس اپنی بساط، بجٹ اور استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہی ہے اس پر صرف الزام لگانا مناسب نہیں، ان کا احترام بھی ضروری ہے۔





