حالات کی تلخیاں

شکیل امجد صادق
ایک پہلوان نے دس سوکھے لیموں نچوڑ کر پورا گلاس جوس نکالا، لوگوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ بھر پور داد دی۔ اس کی ذہانت کو سراہا۔ اس نے بھرے مجمعے میں پھر چیلنج کیا کہ کوئی ہے جو بیس لیموئوں سے نچوڑ کر اتنا رس نکال سکے۔ پورا مجمع خاموش رہا، ایک آدمی کے سوا کوئی آگے نہیں بڑھا اور اس نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ اس آدمی نے پہلوان سے کہا، میں آپ کا چیلنج قبول کرتا ہوں، میں بھی اتنا رس بیس لیموئوں سے نہیں بلکہ صرف دس لیموئوں سے نکالوں گا اور ہاں وہی دس لیموئوں سے جن سے تم نے پہلے ہی سارا رس نکالا ہے۔
سارے کا سارا مجمع انگشت بدنداں ہو گیا۔ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ سارا مجمع اسے پاگل سمجھنے لگا اور پہلوان بھی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ لوگ اس وقت مزید حیران رہ گئے جب اس شخص نے دس سوکھے ہوئے اور پہلے سی نچوڑے ہوئے دس لیموئوں سے جوس کا گلاس نکال کر یہ معجزہ دکھایا۔ مجمعے اور پہلوان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے حیرت سے پوچھا بھائی کیا تم بھی پہلوان ہو؟، اس آدمی نے کہا کہ نہیں، میں پاکستان کا وزیر خزانہ ہوں! جو خود کابینہ سمیت خوشحال ہوں اور نُچڑے ہوئے عوام کو نچوڑے جا رہا ہوں۔ وہی عوام ہے۔ وہی غربت ہے اور وہی بے روز گاری ہے۔ لوگ بھوک سے خودکشیاں کر رہے۔ بجلی کے بل قہر ڈھا رہے ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو آتا ہے۔ ان نچوڑے ہوئے سوکھے لیموئوں سے رس نکال کر اپنا الو سیدھا کر لیتا ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام جس مشکل حالات سے دو چار ہے۔ اس کی مثال دینا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی ملک میں کوئی کلیہ و قاعدہ ہوگا۔ کوئی قانون ہوگا، کوئی آئین ہوگا، کوئی اخلاقیات ہوگی، کوئی نقطہ نظر ہوگا، کوئی زاویہ نگاہ ہو گا، مگر یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں صرف ایک کام بڑی ذمہ سے ہوتا ہے؟ وہ کام ملک کو لوٹنا ہے اور اپنی جائیدادیں بنانا ہے۔ بینک بیلنس بڑھانا ہے؟ سوئس اکائونٹ کھلوانا ہے؟ اپنے بچوں کا مستقبل بہتر سے بہتر کرنا ہے؟ یہاں بڑی ذمہ داری سے حکومتیں، وزیر مشیر، بیوروکریٹس، محکموں کے سربراہ، اداروں کے کرتا دھرتا کر رہے ہیں۔
پولیس سب سے بڑی رشوت خور ہے؟ واپڈا سب سے بڑا بجلی چور ہے؟ صنعت کار سب سے بڑا ٹیکس چور ہے۔ پرائیویٹ سکولز اور کالجز کے مالکان پیسے کے پجاری ہیں۔ فارماسیوٹیکل زندگی بخشنے والی ادویات مہنگی کرکے زندگیاں چھین رہے ہیں، کس کس زخم کا رونا روئیں؟ جس جس زخم کو چھیڑیں گے۔ اسی زخم سے لہو رسے گا۔ کون سا کام سے جو رشوت کے بغیر ہو رہا ہے؟ کون سا ڈاکا ہے جو نہیں ڈالا جا رہا؟ کون سا ظلم ہے جو نہیں رہا؟ کون سا گناہ ہے جو نہیں ہوگا؟ کوئی اخلاقیات باقی ہے جس کا جنازہ نہیں نکل رہا؟ کون سا آئین ہے جو پامال نہیں ہو رہا؟ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں؟ ہدایت کی کتاب کو نہیں مانتے؟ نبیؐ کو نہیں مانتے؟ مگر رشوت نہیں لیتے؟ جھوٹ نہیں بولتے؟ دھوکہ نہیں کرتے؟ امانت میں خیانت نہیں کرتے؟ ملکی سرمایہ نہیں لوٹتے؟ ملاوٹ نہیں کرتے؟ ایک ہم ہیں۔ مسلمان کہلاتے ہیں۔ قرآن کو اللہ کی آخری کتاب مانتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہیں۔ اللہ کے رسول محمدؐ کو آخری نبیؐ مانتے ہیں۔ احادیث کو مانتے ہیں۔ یہ بھی پڑھتے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ پھر بھی ٹکا کر لیتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں۔ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ پھر بھی ہر شے میں دو نمبری کرتے ہیں۔ ایفائے عہد کو جان کر وعدہ پورا نہیں کرتے۔ توقع یہ رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ خیر کا معاملہ ہوگا۔۔۔ ہر گز نہیں۔ برادریوں کی یونینز، لسانیت کے جھگڑے، قبائلی فسادات، فرقے بازی کا فروغ، ملاوٹ میں مہارت، کیا اسلام کا قلعہ اسی لئے بنایا گیا تھا! اگر ہم درست نہ ہوئے۔ انہی حکمرانوں کے لولی پوپ، جھوٹے وعدوں، کھوکھلے نعروں پر یقین کرتے رہے تو یہ لوگ ایسے ہی ہم سوکھے لیموئوں کو نچوڑ نچوڑ کر رس نکالتے رہیں گے اور ان کی نسلیں ہماری نسلوں کا رس نکالتی رہیں گی اور حالت عباس تابش کے اس شعر کی شرع جیسی ہو جائے گی۔
نہ عشق ٹھیک سے ہوتا ہے اور نہ کارِ جہاں
جو تم کہو تو کوئی ایک کام چھوڑ دیں ہم







