سیاسی جماعتوں کا خاتمہ ممکن ہے؟

امتیاز عاصی
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے خاتمے کے لئے بہت جتن کئے مگر انہیں اس سلسلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی جنرل میں کسی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔ ضیاء الحق ایک ذہین وفطین جنرل تھے ورنہ وہ ایک طویل عرصے تک حکمرانی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ناچیز ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے ان کی سب سے بڑی کامیابی مذہبی جماعتوں کو اپنا اسیر بنانا تھا جن کے بل بوتے پر وہ طویل مدت تک اقتدار پر براجمان رہے۔ وہ طیارے کے حادثے میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت دنیا سے رخصت نہ ہوتے تو اقتدار کبھی نہیں چھوڑتے۔ بلاشبہ جنرل پرویز مشرف ایک ذہین اور بہادر جنرل تھے مگر وہ حالات پر قابو پانے کی صلاحیت سے عاری تھے ججز کو گھروں میں قید کرنے کا ان کا تجربہ ناکام رہا جس کے خلاف وکلاء اور سول سوسائٹی نے بھرپور تحریک کا آغاز کیا اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب موجودہ حکومت کے دور میں کھلا ہے جس میں ایک ایسی جماعت کو کنارے لگانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یوں تو قریبا تمام سیاسی جماعتیں طاقت ور حلقوں کی پروردہ ہیں۔ پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جسے طاقتور حلقوں نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر اقتدار سونپا تھا۔ حقیقت میں طاقت ور حلقوں نے عمران خان کو underestimateکیا ورنہ وہ اسے کبھی اقتدار میں نہ لاتے۔ عمران خان میں بے شمار بشری کمزوریاں ہوں گی لیکن وہ مالی لحاظ سے کرپٹ نہیں وہ کرپٹ ہوتا تو اس کے خلاف اب تک کئی مقدمات درج ہو چکے ہوتے اور حکومت کو اس کے خلاف خودساختہ مقدمات درج کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹا کر آئین کے برخلاف مدت تک نگران حکومت رہی جس کی نگرانی میں عام انتخابات ہوئے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آخر عمران خان میں کوئی تو خوبی ہے چھوٹے بڑے نوجوان مرد اور خواتین اس کے سحر میں مبتلا ہیں۔ عمران خان کی جماعت میں توڑ پھوڑ کے باوجود بہت سے رہنمائوں نے طاقت ور حلقوں کی سامنے ہتھیار ڈال دیئے تاہم زیادہ تر لوگوں نے سرنڈر کرنے سے انکار کرکے سیاسی تاریخ میں امر ہوگئے۔ اصولی طور پر الیکشن میں ممکنہ دھاندلی کے خلاف اپیلیں سننے کے لئے ٹریبونل کا قیام الیکشن سے قبل عمل میں لایا جانا چاہیے تھا تاکہ متاثرہ فریق کو جلد از جلد انصاف مل سکے مگر یہاں آئین اور قانون مذاق بن چکا ہے انتخابات ہوئے کئی ماہ گذر گئے ابھی تک الیکشن ٹریبونل کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا ہے جس کا مقصد برسراقتدار جماعت کو کسی نہ کسی بہانے اقتدار میں رکھنا مقصود ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک سیاسی جماعت جو پرانی جماعتوں کے مقابلے میں چند سالوں میں عوام کی پذیرائی حاصل کر چکی ہوکے خاتمے کے لئے بھرپور کوشش جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ بھی سیاہ باب جس میں ایک سیاسی جماعت کے خاتمے کے لئے طاقتور حلقوں کے ساتھ عدلیہ بھی شریک ہے۔ لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس کی تقرری کے معاملی کو دیکھ لیں طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر سینارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والی خاتون کو چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا ہے جب کہ ان سے سنیئر ججز کو ان کے حق سے یکسر محروم کر دینا موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے۔ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کی نواز شریف اور ان کی اہلیہ کے ساتھ تصور یر شیئر کرنے والوں نے بھی کمال کر دیا ہے جو اس بات کی بین شہادت ہے چیف جسٹس صاحبہ کے شریف خاندان سے قریبی روابط ہیں۔ پس زندان رہنے والے شخص سے حکومت اور طاقت ور حلقے اس قدر خوف زدہ ہیں اس کے خلاف مقدمات پر مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں ۔ بعض ججز کو بھی داد دیتے ہیں جو عمران خان کے خلاف خودساختہ مقدمات کو چند تاریخوں میں ختم کرتے آرہے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ فیصلہ ہو چکا ہے عمران خان کو کسی صورت جیل سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔ کون نہیں جانتا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ منی لانڈرنگ کے مقدمات اور بیرون ملک اثاثے بنانے کے باوجود انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ دراصل ہم عوامی انقلاب کی طرف رواں دواں ہیں ۔سیاست اور مفادات کی بے رحمی کا مظاہر ہ کسی نے دیکھنا ہو تو ہمارے ملک میں آکر دیکھ لے جہاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی مفادات کی خاطر کس طرح شیر وشکر ہوگئے ۔ ملک کومعاشی بحران کا شکار کرنے والی یہی تو جماعتیں ہیں ۔ سیاست دانوں نے اپنے مفادات کی خاطر غریب عوام کو تر نوالہ بنا رکھا ہے جب جی چاہا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا۔ سیاست دانوں کو اللہ کا خوف نہیں رہا ہے ان کی سیاست کا محور اور مرکز مال پانی بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ حکمرانوں نے بھیک مانگنے کا وتیرہ اختیار کر رکھا ہے اس مقصد کے لئے مقتدرہ کے لوگوں کو آگے کیا جاتا ہے۔ ہمیں کوئی قرض دیتا ہے وہ محض عسکری قیادت کی درخواست پر دیتا ہے ورنہ سیاست دانوں کو کوئی ایک پائی دینے کے لئے تیار نہیں۔ نواز شریف جو اپنے آپ کو عوام کا مقبول ترین لیڈر سمجھتے تھے نہ وہ ملک گیر دورے کر سکے اور نہ ان کی جماعت جلسوں کا اہتمام کر سکی جس کی وجہ پی ٹی آئی کے بانی نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے۔ عجیب تماشا ہے پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دے کر جلسہ نہیں کرنے دیا گیا جو اس کی مقبول کی واضح دلیل ہے ۔ حکومت ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے تمام ترتوجہ پی ٹی آئی کے خاتمے پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ سوال ہے کیا عوام کی طاقت کے برعکس حکومت کوئی اقدام کر سکتی ہے ۔ ایک دن عوامی انقلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا سیاست دان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور پی ٹی آئی کا خاتمہ خواب بنا رہے گا۔







