امام حریت کی یاد

صفدر علی حیدری
محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ دعا کرتے ہیں کہ یہ سال امت مسلمہ کے لیے کامیابیوں کا سال ہو۔ غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے پاکستانی عوام کو کچھ تو ریلیف ملے۔ کچھ تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے محسوس ہوں۔ سال کا آخری مہینہ بھی قربانی کی یاد دلاتا ہے اور سال کا پہلا مہینہ بھی۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کی ابتداء بھی قربانی ہے انتہا بھی۔ گویا دین کا منتہا قربانی ہے۔
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
دین کا مقتضی قربانی ہے۔
وقت کی ہو خواہ دولت کی
جسم کی ہو خواہ جذبات کی
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
شبنم شکیل نے کیا خوب کہا ہے
جان دیے بنا بات نہیں بنتی ہے
دل ہو مقتل میں تو پھر سر نہیں دیکھا جاتا
دین ایک مومن کی اولین ترجیح ہے۔ اس پر آنچ آئے یہ اسے کب گوارہ ہے۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
جان جائے تو جائے مگر اسلام نہ بگڑے
یہ امام حریت نے آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول سکھایا کہ
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
انکار دین کی اساس ہے۔
اقرار سے انکار سے
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھُو
گویا خالق کو خالق ماننے سے پہلے ہر اس کا انکار جو خود خالق کہتا ہو
نبی مکرمؐ کی رسالت سے پہلے ہر اس بد بخت کا انکار جو نبی و رسول ہونے کا دعویٰ کرے
کہا جاتا ہے نیکی کرنے اور گناہ سے رکنے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب مقصود ہو تو برائی سے بچ جائو کہ برائی بغاوت ہے، نافرمانی ہے ۔ اللہ کی ناراضی کا سبب ہے۔
اسلام اس دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اور کی فتوحات سے آج بھی ایک عالم انگشت بدندان ہے۔ نبی مکرمؐ نے اخلاق حسنہ سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنایا۔ بڑے مختصر سے عرصے میں اسلام ایک عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ جب تک مسلمان اپنے نبیؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے ان کا طوطی بولتا رہا مگر جب ملوکیت نے اپنے پنجے گاڑے ، ان کی ہوا اکھڑ گئی، رعب جاتا رہا اور یہ امت خرافات میں کھو گئی، شمشیر و سناں کی جگہ طائوس و رباب نے لے لی۔ قرآن کی جگہ قصے کہانیاں نے سنبھال لی۔ اجر رسالت یوں ادا ہوا کہ نبی پاکؐ کی آل پاک کو چن چن کر شہید کیا گیا۔
یہ مہینہ انہی ذوات مقدسہ کی یاد دلاتا ہے۔ کرب و بلا کا عظم سانحہ، ہمیں نفی کا درس دیتا ہے۔ طاغوت کی نفی جس کا خاصا ہے، منکر کا انکار جس کا منصب ۔ ضمیر کا سودا تو یہی انکار ایمان کا نور قرار پاتا ہے۔ دین پر بن آئے تو ہجرت کرنا ، وطن چھوڑنا، سکھ چین کھونا حتی کہ دنیا تک چھوڑ دینا اس کا اپنا اور آخری درس کلمہ شہادت سے انسان اسلام کا حامل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ صرف زبانی اقرار ہے ۔ جب وہ اپنے جوارح سے اس کا اقرار کرتا ہے تو وہ امر ہو جاتا ہے
ملاں کی اذان اور ہے مجاہد کی اذاں اور
اذان کی صدا مسجد کی طرف بلاتی ہے مگر اسلام کی صدا جنت کی طرف
امام سب کے رہبر ہیں اور ان کا غم سب کا غم
اس ایک شخص کے قتل سے میری کتنی صدیاں اداس ہیں
آج دنیا میں دن منانے کا رواج ہے۔ محرم کربلا والا کا دن ہے۔ شہادت کا دن ہے۔ یوم الدین ہے۔ اس دن شہ رگ نے تلوار کو کاٹ ڈالا۔ یہ وہ دن تھا جب بظاہر فتح پا گئے تھے ان کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے کیوں کہ عشق تو ایسا کھیل ہے جس میں جو ہارا وہ جیت گیا، دربار یزید میں کہے گئے الفاظ آج بھی امام کی، دین متین کی فتح کا اعلان کرتے ہیں
’’ دیکھ آذان میں کس کے نانا کا نام لیا جا رہا ‘‘
اس کے نواسے کو شہید کرنے والے بھی اس کے نام کا اعلان کر رہے تھے، یہ ہے فتح ۔ دشمن بھی اقرار کیے بنا نہ رہ پائے یہ شہداء کے دن ہیں۔ اگر اور سب دن منائے جا سکتے ہیں تو ان کا دن منانا بھی بدعت قرار نہیں پا سکتا۔
یہ تو طے کہ اس دن کوئی خوشی نہیں منا سکتا۔ جشن منانے کا تو سوال ہی کیا۔ ہاں طریقہ کار کار کا فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے
اسلام کی روح رواداری ہے اور رواداری کا تقاضا ہے جیو اور جینے دو۔ محرم کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ رواداری کی برداشت کی فضا قائم رکھی جائے۔ کوئی ایسا عمل نہ کیا کہ ہم یزید کے ساتھی قرار پائیں۔
آئیے عہد کرتے ہیں کہ محض نعرے باز مسلمان نہیں بنیں گے۔ عملی طور پر اسلام کی گواہی دیں گے ہر ظلم کا راستہ روکیں گے ۔ ہر انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہی کربلا کا اور کرب والوں کا پیغام ہے ۔ اور کرب تو ابھی تک بپا ہے ۔ جب تک ظلم مٹ نہیں جاتا تب تک ۔۔۔
امام حریت کا فرمان ہے:
ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے ، اتنی زیادہ قربانیاں دینا پڑیں گی۔





