والدین شادی شدہ اولاد کی ناجائز حمایت سے گریز کریں

تحریر : رفیع صحرائی
بات معمولی سی تھی لیکن دونوں طرف عدم برداشت کی وافر مقدار نے معمولی بات کو بتنگڑ بنا دیا تھا۔ میاں کا غصہ ہائی وولٹیج پر تھا۔ بیوی کا پارا تھرمامیٹر کی آخری حد سے ٹکریں مار رہا تھا گویا پریشر کو برداشت نہ کرتے ہوئے برداشت کا تھرمامیٹر پھٹ جانے کے قریب تھا۔ دونوں میں سے کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ کوئی تیسرا پاس نہ تھا جو معاملے کو ٹھنڈا کرتا۔ بچے ابھی چھوٹے تھے جو سہمی ہوئی نظروں سے کبھی ماں اور کبھی باپ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کی دکھتی رگ کو چھیڑا جا رہا تھا۔ دونوں طرف سے تاک تاک کر نشانے لگائے جا رہے تھے۔ جوش میں ہوش غائب ہو گئے تھے۔ اختلافِ رائے سے شروع ہونے والی بات مخالفت سے ہوتی ہوئی دشمنی تک پہنچ چکی تھی۔ ایک دوسرے کی خوبیاں اوجھل اور خامیاں کئی گنا بڑھا کر بیان کی جا رہی تھیں۔ بیگم سگھڑ، گھر گرہستن اور سلیقہ شعار سے یکدم پھوہڑ، اجڈ اور بدتمیز کے مرتبے پر فائز ہو چکی تھیں تو شوہر نامدار غیر ذمہ دار، بداخلاق اور ظالم کے منصبِ جلیلہ پر براجمان کر دیئے گئے تھے۔
بالآخر بیگم کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
’’ بس میں اب ایک منٹ بھی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی، تمہارے ساتھ مزید رہی تو اذیت سے میرا دماغ پھٹ جائے گا‘‘ ’’ میں بھی تنگ آ چکا ہوں تمہاری منحوس شکل دیکھ کر، دفتر سے واپسی پر تمہاری سڑی ہوئی شکل مجھے نظر نہیں آنی چاہئے۔ جو کچھ لینا ہے لو اور نکل جائو گھر سے‘‘۔ میاں بھی شدید طیش میں تھے۔
میاں کے جانے کے بعد بیگم صاحبہ نے اپنی ماں کو فون کیا اور تمام احوال بیان کرنے کے بعد بتایا کہ وہ آج ہی بچوں سمیت ان کے پاس آ رہی ہے۔ ایسے ظالم اور سنگدل شخص کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا۔ اب وہ مزید ایک منٹ بھی اس جہنم نما گھر میں نہیں رہ سکتی۔ ماں نے بڑے تحمل سے تمام باتیں سنیں۔ جب ادھر سے بات ختم ہوئی تو ماں بولیں، ’’ انسان کی بچی بن، سکون کے ساتھ وہیں بیٹھی رہ۔ تمہاری شادی اس لئے نہیں کی تھی کہ چند سال بعد اپنا گھر اجاڑ کر ہمارے گھر آ بیٹھو۔ کون سے گھر میں لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے؟۔ لڑائی جھگڑے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گھر ہی چھوڑ دیا جائے‘‘۔
’’ لیکن ماں، انہوں نے خود مجھے گھر چھوڑنے کا کہا ہے۔ وہ میرے شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے‘‘ بیٹی نے روتے ہوئے بتایا۔
’’ میں سب سمجھتی ہوں بیٹی، غصے میں کہی ہوئی باتوں کو سیریس نہیں لیتے۔ میاں بیوی کو تو ایک دوسرے کی ایسی باتیں بالکل بھی دل پر نہیں لینی چاہئیں‘‘ ماں نے اپنی طرف سے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
’’ ماں میرا گزارا اس شخص کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ میں آ رہی ہوں بس‘‘ بیٹی نے ضد کی۔
’’ بکواس بند کرو اور سکون سے بیٹھو اپنے گھر میں‘‘ماں بھی طیش میں آ گئی، ’’ تمہاری بڑی بہن بھی اسی طرح اپنے میاں سے لڑ کر آئی تھی اور اپنی ضد سے پیچھے نہ ہٹتے ہوئے وہ طلاق لے کر دو سال سے ہمارے گھر میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اب تم نے بھی وہی ڈراما شروع کر دیا ہے۔ خبردار جو اس گھر میں قدم بھی رکھا تو۔ بڑھاپے میں تو باپ کو سکون سے رہنے دو۔ تمہاری بڑی بہن اور اس کے بچوں کو پالنے کی خاطر وہ اس عمر میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ کیوں ان پر دوہرا عذاب ڈالنا چاہتی ہو؟ بہتری اسی میں ہے کہ اپنے میاں کے ساتھ صلح کر لو‘‘ ماں نے یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
ماں نے صاف جواب دیا تو بیگم صاحبہ کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ پہلے تو خوب روئی۔ جب دل کا غبار اور دماغ کا خمار ہلکا ہوا تو لڑائی کا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ غصہ اتر چکا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آ چکی تھی۔ بیگم صاحبہ کو لڑائی میں اپنی بھی کافی ساری غلطیاں نظر آنے لگیں۔ سارا منظر واضح ہو چکا تھا۔
آنسوئوں نے دل کا غبار اور ذہن کا میل دھو دیا تھا۔ میاں کی اچھائیاں اور خوبیاں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا، تازہ دم ہوئی اور میاں کی پسند کا کھانا بنانا شروع کر دیا۔ میاں کو کسٹرڈ بہت پسند تھا۔ بڑے اہتمام کے ساتھ خصوصی طور پر کسٹرڈ بنایا۔ دل میں فیصلہ کر لیا کہ شام کو میاں جب دفتر سے آئیں گے تو معافی مانگ لوں گی، آئندہ سے جھگڑا نہ کرنے کا عہد کروں گی۔ اپنا گھر تو اپنا ہی ہوتا ہے۔ میں بھی کتنی بیوقوف تھی کہ اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ کرنا چاہ رہی تھی۔
شام کو میاں گھر آئے تو بیگم نے بہت اچھے طریقے سے ان کا استقبال کیا۔ یوں ظاہر کیا جیسے صبح کچھ ہوا ہی نہ تھا۔میاں کو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ کھانا کھانے کے بعد کسٹرڈ کھاتے ہوئے میاں بولے ’’ بیگم! بعض اوقات مجھ سے بڑی زیادتی ہو جاتی ہے۔ میری بات دل پر مت لیا کرو۔ انسان ہوں، غلطی کا پتلا ہوں۔ غصہ آ ہی جاتا ہے۔ خطا ہو ہی جاتی ہے‘‘ ۔
میاں جی بیگم کے سامنے شرمندگی کا اظہار بھی کر رہے تھے اور اس کے شکر گزار بھی ہو رہے تھے۔ رہی بیگم صاحبہ، وہ اپنی ماں کو دل ہی دل میں دعائیں دے رہی تھی۔ اگر ماں بھی اس کی باتوں میں آ کر جذباتی ہو جاتی تو آج اس کا ہنستا بستا گھر اجڑ جانا تھا۔
اس واقعے میں والدین کے لئے بھی ایک سبق ہے۔ اگر وہ اپنی شادی شدہ اولاد کی ناجائز باتوں کو سپورٹ کریں گے تو اولاد کی خانگی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ والدین سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو 90فیصد گھر ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟





